احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
جب یہ نعمت باوجود بند ہونے کے امت میں نقص پیدا نہیں کرتی تو اسی طرح اگر مطلق نبوت نعمت ہو تو ختم ہونے کی صورت میں کوئی نقص پیدا نہیں کرے گی۔ کیونکہ نعمت اپنے وقت میں نعمت ہے۔ نہ غیر وقت میں جیسے بارش اﷲ کی رحمت ہے۔ مگر اپنے وقت میں نعمت ہے۔ اگر بے وقت ہو تو عذاب بن جاتی ہے۔ طاعون کفار کے لئے عذاب ہے اورمومنوں کے رحمت نبوت کی ضرورت ہو تونعمت ہے۔ اگر ضرورت نہ ہو تو ایک قسم کا عذاب ہے۔ کیونکہ جو ایمان نہ لائے گا۔ وہ نجات سے محروم رہے گا اور امت میں تفریق لازم آئے گی۔ یعنی بعض افراد اور امت بن جائیں گے۔ سو اﷲ کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو اس سے بچالیا۔ سوال… آیت ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے:’’اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس (حج:۷۵)‘‘ {اﷲ فرشتوں اور انسانوں سے رسول چنتا ہے۔} اور آیت ذیل اس کی مؤید ہے: ’’ولکن اﷲ یجتبیٰ من رسلہ من یشائ(آ ل عمران:۱۷۹)‘‘ {اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں سے جسے چاہے پسند کرے۔} جواب… اس آیت میں فعل مضارع محض اس غرض کے لئے ہے کہ بتا دے کہ اصطفاء اور اجتباء اﷲ کا کام ہے۔ جس کو چاہے رسول بنائے اور جس کو چاہے رسولوں سے انتخاب کرے۔ اس آیت کا یہ معنی نہیں کہ اﷲ تعالیٰ چنتاہے اور چنتا رہے گا۔یعنی یہاں مضارع تجددو استمرار کے لئے نہیں۔ اس کی نظیر آیت ذیل ہے۔ ’’ھوالذی ینزل علی عبدہ اٰیات بینات(حدید:۹)‘‘ {اﷲ ہی اپنے بندے پر بین آیتیں اتارتا ہے۔} اس آیت میں بھی صیغہ مضارع کا ہے۔ اب اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کا نزول مستمر ہو۔ جہاں غرض یہ ہو کہ فعل کواﷲ کے ساتھ مختص کیا جاوے۔ وہاں مضارع اثبات فعل کے لئے ہوتا۔ باقی رہا فعل کا دائم یا غیر دائم ہونا۔ یہ اس صیغہ سے ثابت نہیں ہوتا۔ نہ اس کی نفی ہوتی ہے۔ اس کی نفی یا اثبات کے لئے دوسری دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے یہ استدلال کرنا کہ فعل مستمر ہے، لغو ٹھہرتا ہے۔ سورہ حج میں کفار کے اس استبعاد کو رد کیاگیا ہے جو وہ کہتے تھے کہ رسول کوئی بڑا آدمی ہونا چاہئے… فرشتہ بھی ہونا چاہئے نہ انسان۔ اس استبعاد کو اس طرح رفع کیا کہ انتخاب میرا کام ہے نہ تمہارا۔ میں جسے چاہوں منتخب کروں۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ انتخاب مستمر ہے یا منقطع۔ یہ دوسرے دلائل سے ثابت ہوگا۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا ہے۔