احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
آیت سے اس کی تردید کرتے ہیں یا اس کا مطلب کچھ اور لیتے ہیں اور ہر حال میں ان آیتوں سے جو علماء مطلب لیتے ہیں۔ مرزا قادیانی کو اختلاف ہے اور بعض حدیثوں کا موضوع لہ اپنے آپ کو قرار دیتے ہیں۔ اس حدیث کے منشاء کے موافق مرزا قادیانی کو یہ کرنا چاہئے تھا کہ ان کا تصفیہ علماء وقت پرمنحصر فرماتے۔ ایک مثل ہے Doubt is sister of the unlawful, consult in your affairs ------- ’’شک جس چیز میں وہ حرام کی بہن ہے۔ اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لو جو خدا ترس ہوں۔‘‘ جب کوئی بات انسان نہ سمجھ سکے یا کسی بات میں اس کو شک ہو تو غلبہ اراء پر عمل کرنا چاہئے۔ عقل کا مقتضا بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بات میں تنبیہ ہو اس کو علماء اور خدا ترس لوگوں کی رائے سے حل کرنا چاہئے۔ اپنی مجرد رائے پر بھروسا نہ کرلینا چاہئے۔ ممکن ہے کہ اس کی رائے غلط ہو۔ یہ امر صاف ہے کہ مرزا قادیانی کو اپنی رائے پر اس قدر بھروسہ کرنے کی کہ فلاں حدیث کا موضوع لہ میں ہوں،کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔ جبکہ کثرت رائے علماء کی ان کے خلاف تھی، تو ہزار عقول انسانی پر اپنی ایک رائے کو ترجیح دینا او رمن مانی ایک نئی نبوت کی بنیاد ڈال کر ایک جماعت میں تفرقہ ڈالنا ہرگز درست نہیں ہو سکتا اور اس طرح نبی بننے کی کوشش کرنے کی وجہ صرف یہی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کا رتبہ سب انسانوں سے افضل اور اعلیٰ ہوتاہے۔ لہٰذا مرزا قادیانی نے عالم پر درجہ تفوق حاصل کرنے کے لئے دعویٰ کیا۔ چونکہ ان کا مقصود یہ ہے کہ ان احادیث کا مدلول میں ہوں جن کا ذکر ہو چکا ہے۔ تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اس معاملہ میں اہل غرض تھے اور صاحب غرض کی رائے صحیح نہیں ہوتی۔ اسی لئے یہ مثل مشہور ہے کہ اہل الغرض مجنون۔ اہل غرض کو کبھی اپنی رائے پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ حدیث متذکرہ بالا کی رو سے اورانگریزی مقولہ کے لحاظ سے مرزا قادیانی کو عالموں کے رائے کے موافق عمل کرنا چاہئے تھا۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ نے حجۃ البالغہ میں باب حقیقت النبوت و خواصہا کے تحت ہادی اور پیشواؤں کا مضمون تحریر فرمایا ہے اور ان کے اقسام حسب ذیل بتلائے ہیں۔ ۱… جس کو عبادت کے ذریعہ سے تہذیب نفس کے علوم کا القا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ کامل کہلاتا ہے۔