احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
اور ’’خاتم القوم اخرھم‘‘ کے معنی ہیں کتب لغت میں مسطور ہے اور مجمع البحار کی پہلی عبارت میں قرآن کو خاتم کہا ہے اور اسی کو مصدق کہا ہے۔ اگر خاتم کا معنی یہ کہا جائے کہ آپ کی معرفت نئے نبی بنتے ہیں تو قرآن سے اس معنی کے اعتبار سے نئی کتابیں بننی چاہئیں۔ سوال… خاتم النّبیین ال استغراق نہیں بلکہ ایسا ال ہے جیسے ’’یقتلون النّبیین‘‘ میں ہے اور یہ آل استعراقی نہیں۔ کیونکہ سارے نبی قتل نہیں ہوئے۔ جواب… جمع مذکر سالم پر اگر الف و لام داخل ہے۔ تو اصل یہی ہے اور جمیع افراد کے لئے ہو۔ جیسے ’’رب العالمین‘‘(سارے عالموں کا رب) ’’ان اﷲ یحب المحسنین فان اﷲ لایحب الکافرین‘‘{ اﷲ تعالیٰ سب محسنین سے محبت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کافر سے محبت نہیں کرتے۔} اگر قرینہ پایا جائے تو اس سے بعض افرادمراد لئے جاسکتے ہیں۔ جیسے ’’للعالمین نذیرا‘‘فرقان آنحضرتﷺ پر اس لئے نازل کیا کہ وہ جہاں والوں کوڈرائیں۔ اس جگہ عالمین سے مراد وہ ہے جن و انس میں جو آپ کی بعثت کے بعد قیامت تک آپ پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ اس سے یہ لازم نہیںآتا کہ رب العالمین میں بھی تخصیص ہو۔ اسی طرح خاتم النّبیین میں بجز آپ کے سب نبی مراد ہیں۔ کیونکہ آپ مضاف ہیں اور مضاف مضاف الیہ کا غیر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی قرینہ نہیں جو تخصیص پردلالت کرے اور ’’تقتلون النّبیین‘‘{قتل کرتے ہیں نبیوں کو} میں تین قرینے ہیں۔ جس سے نبیین کی تخصیص کی جاتی ہے۔ ۱… لفظ ’’قتل‘‘ کیونکہ بعض جگہ قرآن مجید نے بعض نبیوں کے قتل کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’وفریقا تقتلون‘‘{ایک فریق کو قتل کرتے ہو} اور واقعہ بھی اسی طرح ہے کہ بعض نبی قتل ہوئے۔ یہ قرینہ حسی ہے اور پہلا لفظی۔ ۲… یہود کا فاعل ہونا۔ کیونکہ یہود صرف انہی کو قتل کر سکتے تھے۔ جو نبی ان میں ہوئے۔ ۳… بعض انبیاء کے غیر مقتول ہونے کا ذکر ’’واﷲ یعصمھا من الذین‘‘ {اﷲ مجھے لوگوں سے بچائے گا۔} یہ تین قرائن دلالت کرتے ہیں کہ یہاں بعض نبی مراد ہیں۔ سوال… نبوت ایک نعمت ہے۔ اس امت سے نعمت کیوں سلب ہوئی؟ جواب… نزول کتاب اور نبوت تشریعی بھی اور نبوت مستقل بھی لامحالہ ایک نعمت ہے۔ ’’لقد منّ اﷲ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا (آل عمران:۱۶۴)‘‘ {بیشک مومنوں پر اﷲ کا احسان ہے جب اس نے ان میں ایک رسول بھیجا۔}