احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کر اپنے آپ کو حضرت عمرؓ سے تشبیہ دی ہے کہ جیسے آنحضرت محمدﷺ کی خدمت حضرت عمرؓ کمر باندھ کر کیا کرتے تھے۔ اسی طرح میں بھی خدمت کروں اس شخص کی جو نیک راہ پر چلنے کی وجہ سے میں اس کو مثل مصطفی سمجھتا ہوں۔ مرزا قادیانی نے تشبیہات اور استعارات شاعری سے اپنا مطلب اخذ کر کے نبی بننے کی کوشش کی تو کیا وہ نبی ہو جائیں گے؟ ہرگز نبی نہیںہو سکتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے ترمذی کی اس حدیث کا ترجمہ اپنے اشعار بالا میں فرمایا ہے جس کو میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ ’’رویا المسلم وھی جزء من اجزاء النبوۃ ‘‘ یعنی مسلمان کا وہ خواب جس کو رسول اکرمﷺ نے اسی حدیث میں مبشرات ارشادفرمایا ہے، ایک جز ہے اجزاء نبوت سے۔ اسی بناء پر مولانا نے یہ مصرعہ فرمایا تانبوت یابی اندرامتے۔ چونکہ مسلم کا خواب میں حالات نیک کا مشاہدہ کرنا انوار نبوت سے نور اخذ کرنے کے مماثل ہے۔ لہٰذا مولانا نے دوسرے شعر میں یہ لکھا ہے : چون ازو نور نبی آیدپدید اونبی وقت خویش است اے مرید نیک لوگوں کی نسبت ان کی خدمات کے لحاظ سے اکثر تشبیہ دیاکرتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا سلیمان ہے۔ یا کسی عادل بادشاہ کو کہا کرتے ہیں کہ و ہ اپنے وقت کا نوشیرواں ہے یا سخاوت کے اعتبار سے کسی کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کا حاتم ہے۔ اسی طرح مولانا نے فرمایا ہے ’’او نبی وقت خویش است‘‘ یعنی گویا وہ اپنے وقت کا نبی ہے تو ان تشبیہات سے کیاکوئی فی الواقع نبی بننے کی کوشش کرسکتا ہے؟ اگر ایسے دلائل مولانا کے کلام میں نہ بھی ہوتے تو ہم کہہ سکتے کہ مولانا کا کلام اگر خلاف قرآن مجید اور حدیث کے ہے تو وہ ماننے کے قابل نہیں ہے۔ فرض کیجئے اگر مولانا کا یہ شعر ہوتا ،عادل وقت است چون نوشیروان، شاہ وقت خویش اے عالی نشان، توکیا مرزا قادیانی شاہ وقت یعنی اپنے وقت کے بادشاہ نوشیروان ہونے کا دعویٰ کر دیتے ؟ اس لئے کہ مرزا قادیانی کا آریوں سے مباحثہ کرنا اور پادریوں سے مناظرہ کرنا صلیبوں کو توڑنے اور دنیا کو عدل سے بھر دینے کے مماثل ہے اور جب مرزا قادیانی نے دنیا کو عدل سے بھر دیا تو وہ اپنے وقت کے نوشیروان عادل ہوئے۔ اس لئے کیا وہ فرما سکتے تھے کہ میں نے دنیا کو عدل سے بھر دیاہے۔ اس لئے میں نوشیروان عادل ہوں اور اپنے وقت کا بادشاہ ہوں اور شاہی احکام ملک ایران اور توران پر نافذ فرما دیتے اور اپنے نام کاسکہ سارے ملک فارس میں جاری فرما دیتے؟