احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یا سورج کہہ کر اس سے معشوق کا رخسار یا چہرہ مراد لیں۔ بدر چاج کے دیوان کو دیکھئے تو سارے کا سارا دیوان استعارات سے بھرا پڑا ہے۔ مثلاً اس کا یہ شعر: چودوش از سقف مینارنگ طشت زرنگار افتاد فلک راکاسہ ہائے نقرہ دردریائے قاراافتاد اس شعر میں سقف مینارنگ سے آسمان مراد لیا ہے اور طشت زرنگار سے آفتاب استعارہ ہے اورکاسہ ہائے نقرہ سے تارے مراد لئے ہیں۔ دریاے قار یعنی سیاہ سے رات مراد ہے۔ اسی طرح مبالغات ہیں کہ وصف کی شدت کا اس حد تک دعویٰ کرنا کہ وہاں تک اس کا پہنچنا محال ہوتا کہ سامع کو یہ گمان نہ رہے کہ اس وصف کی شدت کا کوئی مرتبہ باقی ہے۔ مثلاً یک نیزہ رفت گریہ من از فلک براوج کشتی درست کرد زطوبی ملک براوج اس شعر میں غور فرمائیں کہ گر یہ آسمان سے بھی ایک نیزہ زیادہ بلند ہو گیا اور بارش کی ایسی طغیانی ہوئی کہ فرشتوں نے ڈوبنے کے خوف سے طوبے کی لکڑی لے کر کشتی بنالی۔ بلحاظ علم عروض استعارات اور مبالغات کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ اگر مولانا روم نے اپنے اشعار میں استعارات اور مبالغات سے کام لیا تو مرزا قادیانی کو موقع مل گیا کہ مولانا کے کلام کو بطور سند کے پیش فرمائیں۔ مولانا روم فرماتے ہیں کہ نیک کام کرتاکہ امت میں تو نبوت کو پائے گا۔ یہ مثال ایسی ہے کہ کوئی عاشق کہے کہ جس باغ میں انتظار کروں گا وہاں میرا چاند آئے گا۔ تو کیا حقیقی چاند یعنی مہر آسمان تھوڑا ہی آئے گا، بلکہ معشوق آئے گا۔ مطلب شعر کا یہ ہے کہ راہ نیک میں نیک خدمات انجام دے تو نبوت کی جھلک اس امت محمدیؐ میں تو دیکھے گا اور صفات نبوت محمدی کو امت محمد میں بھی پائے گا اور جب اس نیک راہ پر چلنے والے اور نیک خدمات کرنے والے سے انوار نبی ظاہر ہونے لگیں گے تو گویا وہ بھی اپنے وقت کا نبی ہے۔جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں یہ شاعرانہ مبالغہ توصیفی ہے۔ جیسے میر انیس صاحب اور مرزا دبیر صاحب کو فن شاعری، مرثیہ گوئی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچنے کی وجہ سے لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کے خدائے کلام تھے۔ فردوسی، انوری، خاقانی کو لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے وقت کے خدائے کلام تھے۔ تو کیا اس سے معاذ اﷲ وہ خدا ہو گئے۔ مولانا نے تیسرے شعر میں تو اس شخص کو جو نیک راہ پر چلے اور نیک کام کرے، پیغمبرسے تشبیہ دی ہے۔ اس سے بڑھ کر چوتھے شعر میں اسی کو مصطفی سے تشبیہ دے