احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
الہام ایک ایسی چیز ہے کہ اکثر لوگوں کو ہوتاہے۔ محض الہام سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی شخص دعویٰ کرے کہ خدا مجھ سے بکثرت بولتا ہے اور مجھے جواب دیتا ہے۔ خدا فرماتا ہے ’’فالھمہا فجورھا وتقواھا قدافلح من زکھا وقد خاب من دسھا (شمس:۸،۹،۱۰)‘‘پس اس کوالہام کیا (خدا نے) اس کی بری باتوں کا اور اس کی انہی باتوں کا خدا نے جس کو فلاح دی اس نے مراد پائی اور جس کی جان کو دبادیا وہ نامراد ہوا۔‘‘ خدا تو انسان کی بری باتوں کا بھی الہام کر دیتا ہے اور اچھی باتوں کا الہام بھی اس کو کر دیتا ہے۔ معلوم نہیں خدا نے مرزا قادیانی کو کن باتوں کا ملہم کیا تھا۔ یہ تو انسان کا اختیار ہے کہ وہ جس کو چاہے، اختیار کرے۔ انسان برے کام کرتا ہے تو خدا کی طرف سے اسے الہام ہو جاتا ہے زمانہ حال میں کانشنس کہتے ہیں۔ چور، ڈاکو کو بدمعاش جس قدر برے کام کرتے ہیں۔ خدا تو ان کو بھی پہلے الہام کر دیتا ہے کہ یہ کام جو تو کرنا چاہتا ہے، برا ہے۔ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہ پاؤ گے کہ وہ برے کام کو اچھا سمجھ کر کرے۔ برے کام کاکرنا انسان برا جانتا ہے مگر اس کا نفس امارہ اور خواہشات نفسانی اس کو ان جرائم کے ارتکاب کی طرف رجوع کر دیتی ہیں۔ تو وہ کام خود انسان سے منسوب ہوتا ہے۔ مگر اﷲ نے تو اس کو پہلے سمجھا دیا تھا اورملہم کر دیا تھا کہ یہ کام جو تو کرنا چاہتاہے، برا ہے۔ مگر جب انسان برے کام کو برا جان کر کرتا ہے تو یہ خود اس کا فعل ہوتا ہے۔ کیونکہ اﷲ نے انسان کو عقل دی ہے۔ وہ اچھے برے کام کو تمیز کرسکتا ہے۔ کیا عجب ہے کہ مرزا قادیانی کو خدا نے الہام کے ذریعہ سے مطلع فرما دیا ہو اور مرزا قادیانی باوجود الہام کے بھی اپنے ارادہ سے باز نہ آئے ہوں تو پس الہام کے ہونے سے تو ہم بھی انکار نہیں کرتے۔ الہام تو سب کو ہوتا ہے۔ انسان کو اس کی بری باتوں کی طرف ملہم کرنے کے بعد خدا کے الہام کے خلاف کرنا یا نہ کرنا یہ اختیاری کام انسان کا ہے۔ باران کہ درلطافت طبعش خلاف نیست ودرباغ لالہ روید ودر شور یوم خس خود اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:’’مااصابک من حسنۃ فمن اﷲ ومااصابک من سیئۃ فمن نفسک (النسائ:۷۹)‘‘{جو بھلائی تجھ کو پہنچتی ہے، وہ تو اﷲ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھ کو پہنچتی ہے وہ تیرے گناہ کی شامت ہے۔} یہ امر کہ انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ اس کے شامت اعمال سے کیوں منسوب کیا گیا ہے۔ یہاں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا کیونکہ وہ ہمارے مبحث سے متعلق نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ ’’فالھمہا فجورھا وتقواھا (شمس:۸)‘‘