احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
جب صلیب سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتار لئے گئے تو ان کی لاش کو جیسا کہ بعض انجیلوں میںلکھا ہے، یوسف نے قبر میں رکھ کر اوپر ایک پتھر رکھ دیا۔ صبح کو دوسرے روز اس شبہ کی وجہ سے کہ مرے یا نہیں (کیونکہ صلیب پر صرف چند گھنٹے رہے تھے) یہودیوں نے دیکھا تو لاش غائب تھی۔یہ یوسف کون تھے۔ اس موقع پر اس کی بحث غیر ضروری ہے۔ملاحظہ ہو (انجیل یوحنا باب درس ۴۵ و انجیل لوقا باب ۲ درس ۲۷،۴۱) شاید اسی وجہ سے ابن عباسؓ نے لفظ قبر بیان کیا ہے۔ قران کریم کے الفاظ ’’وما قتلوہ‘‘ سے اگر کوئی شخص دوسرا مطلب نکالے تو اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ اﷲ تعالیٰ کو یہ ظاہر کرنا منظور تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بذریعہ قتل کرنے کے نہیں مارے گئے۔ اسی طرح ’’وما صلبوہ‘‘ ہے کہ صلیب پر چڑھاکر نہیں مار ڈالے گئے۔ اس سے صلیب پر چڑھانے کی نفی نہیں ہوتی بلکہ صلیب پر چڑھا کر مار ڈالے جانے کی نفی ہوتی ہے۔ مگر ’’ولکن شبّہ لھم‘‘ سے میرے بیان کی تائید ہوتی ہے۔ جس کو میں آگے بیان کروں گا کہ یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پرچڑھا کر مار ڈالے گئے تو اﷲ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہودیوں کا خیال غلط ہے۔ صلیب پر چڑھائے جانے سے یہودیوں کو مر جانے کا شبہ ہوا لیکن وہ صلیب پر چڑھا کر مار نہیں ڈالے گئے۔ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا۔ اس موقع پر مرتبہ بلند کرنے کے معنی لے کر سیاق عبارت کے خلاف تاویلات کرنا نہ معلوم کیوں کرپسند کیا گیا۔ انجیلوں کے دیکھنے سے اور علماء کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہودیوں نے کفر اور الحاد کا الزام لگایا کہ وہ شریعت موسوی کے خلاف ہو گئے ہیں۔ اس لئے ان کے قتل کے درپے تھے تو ایک اور الزام بغاوت باسرکار کا عائد کر کے صلیب کی سزا تجویز کی اور صلیب پر چڑھایا۔ انجیل یوحنا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد صلیب چڑھانے کے صر ف ہتھیلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کیل ٹھوکے گئے لیکن لوقاکی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ پیروں میں بھی کیل ٹھوکے گئے۔ چونکہ اس روز یہودیوں کی عید فصح تھی اور ضرور تھا کہ مصلوب کی لاش مغرب سے قبل دفن کر دی جائے۔ اس لئے صلیب سے اس روز لاش علیحدہ کر کے حواریوں کے حوالہ کردی گئی۔ چونکہ صلیب پر اس قدر جلد انسان کا مرنا مشکل ہے۔ممکن ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر غشی طاری ہو گئی ہو اور ان کومردہ سمجھ کر یہودیوں نے جلد صلیب سے اتار دیا ہو۔ (انجیل متی باب ۲۷،