احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
، انجیل یوحنا باب ۱۹)اور (انجیل لوقا باب ۱۵) سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہتھیلیوں کے زخم اپنے حواریوں کو دکھلائے۔ کسی انجیل سے یا کسی کتاب سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دفن کئے گئے یا ان کی کوئی قبر ہے۔ البتہ عیسائی اعتقاد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چلے گئے اور مسلمان بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’’رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس اٹھا لیا۔ اس امر کی تائید میں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہ تھے، انجیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی لاش حواریوں کے حوالہ کرنے کی حاکم سے استدعا کی گئی تو خود حاکم کو بڑا تعجب ہوا کہ صلیب پر اس قدر جلد کیسے مرگئے۔ کیونکہ صلیب پر انسان چار پانچ، چھ دن تک بھی نہیں مر ا کرتے ہیں۔ کیا عجب ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہتھیلیوںمیں سوراخ ہونے سے صرف غشی طار ی ہو گئی ہو اور لوگوں نے مردہ سمجھ لیا ہو اور دفن کرنے کے لئے حوالہ کر دیا ہو۔ یہ امر کہ صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد اکثر لوگ زندہ پائے گئے، متعدد تاریخی واقعات سے ثابت ہے۔چنانچہ یوسی بیس مورخ اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ یمسطوس نے بادشاہ سے سفارش کر کے تین آدمیوں کو صیلب سے اتروالیا اور ان میں سے ایک شخص زندہ رہا۔ایک اور رومی مورخ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ دارا کے حکم سے ایک شخص مسمی سندو کیس صلیب پر چڑھایا گیا اور کئی دن کے بعد اتارا گیا۔ وہ زندہ تھا۔ملاحظہ ہو تفسیر انجیل متی مرتبہ ڈاکٹرکلارک۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف پانچ،چار گھنٹہ ہی صلیب پر رہے اور بوجہ عید فصح کے جلد اتار لئے گئے تو ان کا زندہ رہنا کچھ تعجب نہیں۔ ابھی حال کے زمانے میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ وہ یہ کہ شہر ہال واقع جرمن میں ایک ایسی لاش ڈاکٹر جونکر کے حوالہ کی گئی تھی جو صلیب سے اتاری گئی تھی۔ یہ لاش ایک افسر فوج کی تھی۔ جو بموجب قانون فوج بعلت خلاف ورزی قانون فوج( کہ وہ جنگ کے وقت فرار ہو گیاتھا) صلیب پرچڑھایا گیا تھا اور اس کی لاش ڈاکٹر جونکر کے حوالہ اس غرض سے کی گئی تھی کہ وہ اپنے شاگردوں کی تعلیم کے وقت اس لاش کو چیر پھاڑ کر عملی تجربہ کرکے بتلائے۔ ڈاکٹر مذکور کہتا ہے کہ رات کے ایک بجے جب اس کمرہ میں کچھ آواز آئی جس میں وہ لاش رکھی گئی تھی، تو میں چراغ لے کر اس کمرہ میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور وہ بیٹھا مجھے تاک رہا ہے۔میں ایسا گھبرایا کہ قریب تھا کہ میرا دم نکل جائے کہ اتنے میں آہستہ آواز آئی کہ اے نیک جلاّد، میرے حال پر مہربانی کر تو میں اس وقت سمجھا کہ یہ شخص صلیب