احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
پس بلحاظ آیت مذکور کے جو اعتراض میرے فاضل دوست نے کیا تھا، وہ رفع ہو جاتا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دو ہزار برس پہلے مرنے کی اس حدیث سے تردید ہوتی ہے۔ اس قدر بیان کرنے کے بعد پھر میں اس بحث کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو متوفیک اور رافعک الیّ کے متعلق ہے۔ سورہ آل عمران میں جو ارشاد تھا اس سے زیادہ صاف اﷲ تعالیٰ نے سورہ النساء میں ارشاد فرمایا ہے ’’وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وماصلبوہ ولکن شبّہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۷، ۱۵۸)‘‘ {اور کہنے لگے (یعنی یہودی) ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو جو خدا کا رسول تھا (اپنے کو رسول کہتا تھا) مار ڈالا،حالانکہ نہ ان کو مار ڈالا (یہودیوں نے) نہ سولی دی لیکن ان کو شبہ پڑ گیا اور جو لوگ اس میں اختلاف کر رہے تھے وہ خود شک میں تھے ان کو کوئی یقین نہ تھا مگر گمان سے کہتے تھے (اس کے بعد خد ا تعالیٰ فرماتا ہے) ان یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا بلکہ اﷲ نے اس کو اپنے پاس اٹھا لیا۔} اس کے سوا اور بھی آیات قرآنی ہیں جن سے روز روشن سے زیادہ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے نہ مار ڈالا نہ سولی دی بلکہ خود اﷲنے ان کو اپنے پاس اٹھالیا۔ رفعہ اﷲ الیہ اور پہلی آیت میں رافعک الیّ خاص توجہ کے قابل ہیں لفظ ’’الیّ‘‘ اور ’’الیہ‘‘ سے ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس اٹھا لیا ان دونوں الفاظ کی وجہ سے رفع کے معنی اور کوئی نہیںلئے جا سکتے۔ میں نے اور لوگوں سے سنا ہے کہ قادیانی حضرات رفع سے مرتبہ بلند کرنے کے معنی لیتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو میں کہتا ہوںکہ یہ خیال ان کا درست نہیں ہے۔ ایک واقعہ جیسا کہ ابن عباسؓ سے منقول ہے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوںنے جب سولی دینے کا ارادہ کر لیا تو حسب خواہش حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ایک حواری نے بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر چڑھنا قبول کرلیا جس کا نام شمعون یا یہودا تھا اوراس کی صورت قریب قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہوگئی۔ اسی حواری کو عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر یہودیوں نے صلیب پر چڑھادیا اور اﷲ تعالیٰ نے ان کو قبر میں سے زندہ اپنے پاس اٹھا لیا۔ آیت کے الفاظ ’’شبہ لھم‘‘ اور ’’لفی شک منہ‘‘ سے بہت اچھی طرح اس روایت کا ثبوت ملتا ہے جو ابن عباسؓ سے منقول ہے۔ البتہ قبر میں سے اٹھا لینا جو بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ بحث طلب رہتا ہے۔اس کے متعلق صرف اس قدر لکھنا کافی ہے کہ