احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
نیز یہ کیسے معلوم ہوا کہ پہلے صرف بلاواسطہ نبی ہوتے تھے۔ اگر ہوتے تھے تو خدا نے سنت کی تبدیلی کب سے کی۔ اس تبدیلی کی کیا دلیل ہے اور اس حدیث سے استدلال درست نہیں۔ کیونکہ اس میں تبدیلی کا ذکر نہیں۔ سوال… یہ حدیث اس معنی کی رو سے جو تم نے کئے ہیں، مسیح کی آمد ثانی کی بھی مانع ہے۔ کیونکہ آخری اینٹ رسول کریمﷺ کے زمانہ میں نبوت کے محل میں رکھ دی گئی۔ پھر کسی پہلی اینٹ کو اکھیڑ کر دوبارہ مکان میں لگانا فضول ہے۔ جواب… مسیح نبوت کے مکان کی ایک اینٹ ہے۔ جو اپنے وقت اپنی جگہ لگ چکی ہے اور قیامت کے دن بھی وہ اس مثالی مکان کی اینٹ ہوں گے۔ اسی طرح اب اگر دنیا میں تشریف لائیں تو اس مکان سے علیحدہ نہیں ہوںگے۔ تاکہ پھر دوبارہ آپ کو لگایا جائے۔ قادیانیوں کو شاید یہ وہم اس لئے ہوا ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ مکان آسمان یا عالم مثال میں کوئی نفس الامری وجود رکھتا ہے اور سب انبیاء اپنا اپنا مکان لئے ہوئے اس میں پیوست ہیں۔ پس جب مسیح عالم مثال سے عالم شہادت میں یا آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے تو لامحالہ اس نقل و حرکت سے وہ اس مکان سے اکھڑ جائیں گے۔ یہ محض وہم ہی وہم ہے۔ کیونکہ یہ مکان تمثیلی ہے۔ یعنی فرضی ہے۔ ایسی تمثیلات میں وجو د عقلی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جیسے آخری اینٹ سے مکان مکمل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح میری آمد سے نبی ختم ہو چکے ہیں۔ میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ سوال… اگر اس امت میں دجال ہی دجال ہوں۔ کوئی صادق نہ ہو تو یہ امت شرالامم ہوں نہ خیر الامم! جواب … یہ سوال بھی عجیب ہے۔ اگرسارے مدعی نبوت دجال ہی ہوتے۔ کوئی سچا نہ ہوتو یہ امت شرالامم ہوئی۔ یہ اس طرح ہے کہ کوئی اگر ہر مدعی نبوت جھوٹا اور دجال ہی ہو۔ کوئی سچا نہ ہو تو امت شرالامم ہوئی۔ سبحان اﷲ!کیسی سمجھ ہے۔ جب ایک امر کا دعویٰ شرعاً سراسر کذب و افتراء ہے تو اس میں تقسیم کی گنجائش کب؟ ہاں جو کمالات اس امت کے لئے باقی ہیں۔ وہ بھی اس امت میں نہ ہوں تو اس صورت میں اس امت کے شرالامم ہونے کا احتمال ہے۔ اس امت کا کمال اب نبی کی متابعت میں ہے اور حدیث شریف میں کہ ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا۔ ’’وعن معاویۃ بن قرۃ عن ابیہ قال رسول اﷲﷺ ولا یزال طائفۃ