احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
جواب… خواب والی حدیث جس میں مبشرات کو نبوت سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ عوام اور خواص سب کوشامل ہے، نہ کوئی عام اس سے آگے بڑھ کر نبی بن سکتا ہے نہ کوئی خاص اور وہ حدیث جس میں محدث کا ذکر ہے۔ اس میں او ل تو اس سے محدث کے ضرور ہونے کا یقین نہیں ہوتا۔ اگر محدث کے ضرور ہونے کاذکر ہو تو اس میں کوئی صیغہ عام نہیں۔ پھر اگر اس کا مورد خاص ہے تو دوسرے قرائن کی بناء پر ہے اور حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ عام ہے۔ سب کو شامل ہے۔ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا اورمسیح سے مراد سابق نبی ہے۔ نہ کوئی جدید مدعی۔ یہاں ایسا کوئی قرینہ نہیں۔ جس سے اس کو خاص قرار دیا جائے۔ بلکہ بہت سے قرائن ایسے موجود ہیںجن سے عموم قطعی بن گیا ہے۔ سوال… ایک اور بات جو صاحب فتح الباری اور ملا علی قاری نے لکھی ہے۔’’وقیل ھو فان یک فی امتی احد فعمر علی ظاہرہ ہذا القول وردمور التردد‘‘ کہا گیا ہے کہ یہ حدیث (میری امت میں کوئی (محدث) ہوا تو عمر ہوگا) اپنے ظاہر پر ہے۔ یعنی یہ کلام تردد کے لئے ہے۔ جواب… اس کلام کے ذکر سے کیا مقصد ہے۔ اگر اعتراض کرنا مقصود ہے تو لغو ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں محدث ہونے میں بھی تردد ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا درجہ نبی سے کم ہوتا ہے۔ پھر اس سے نبی کے ہونے کا کیسے ثبوت مل سکتا ہے۔ شاید سائل یہ سمجھ رہا ہے کہ اس حدیث میں نبوت کے بارہ میں متردد کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس میں نبوت کے متعلق تردد نہیں۔ بلکہ محدث کے متعلق ہے اور جس حدیث میں حضرت عمر کی نبوت کاذکر ہے (کہ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے) وہ حدیث اور ہے۔ وہاں کفر کا لفظ اور لو نفی کے لئے ہے۔ تردد کے لئے لفظ ’’ان‘‘ ہوتا ہے۔ سوال… للبنہ والی حدیث میں لفظ ’’من قبلی‘‘صفت واقع ہے اور موصوف الانبیاء ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس قسم کے انبیاء پہلے ہوتے تھے۔ یعنی براہ راست اس قسم کے انبیاء اب نہیں ہوں گے۔ جواب… حدیث میں لفظ ’’من قبلی‘‘ حال واقع ہے۔ صفت نہیں اور حال سے توحید سمجھی جاتی ہے۔ مگر یہاں وہ اتفاقی ہے نہ احترازی۔ آخری جملہ ’’ختم بی الرسل‘‘(میرے ساتھ رسول ختم ہو گئے) اور لفظ ’’انا اللبنۃ‘‘ (میں وہ اینٹ ہوں) اور لفظ خاتم النّبیین (میں خاتم النّبیین ہوں) اس کی پوری پوری تشریح کر رہا ہے۔