احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یکن من امتہ ویقویہ حدیث لوکان موسیٰ حیالما وسعہ الا اتباعی (موضوعات کبیر ص۶۹)‘‘ {اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی بن جاتے۔ اسی طرح اگر عمر بھی نبی بن جاتے تو ضرور یہ آنحضرتﷺ کے متبعین سے ہوتے۔ حضرت عیسیٰ، حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہم السلام ہیں۔ پس یہ اﷲ تعالیٰ کے قول خاتم النّبیین کے منافی نہیں۔ کیونکہ اس قول کا یہ معنی ہے آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا۔ جوآپ کے دین کو منسوخ کردے اورآپ کی امت سے نہ ہو۔ اس حدیث سے بھی اس کی تقویت ہوتی ہے۔ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو لازمی طورپر میری اتباع کرتے۔} اس عبارت سے جو معلوم ہوتا ہے۔ اس کا ہم جواب دو طرح سے دے چکے ہیں۔ ۱… اگر ابراہیم اور حضرت عمر نبی ہو جاتے تو ان کی نبوت اس آیت کے منافی نہ ہوتی۔ اگرچہ حدیث لانبی بعدی کے منافی ہونے کی بناء پر ایسا نہیں ہو سکتا۔ ۲… نبوت کا ایک معنی ایسا ہے جو شرعی معنی سے عام ہے۔ جس میں تشریع کی قید نہیں۔ ایسی نبوت خاتم النّبیین کے منافی نہیں۔ تشریعی نبوت (جو شریعت میں وہی نبوت ہے) کے منافی ہے۔ اب ذرا مزید وضاحت سنئے۔ ملا علی قاری اس عبارت میں یہ کہنا چاہتے ہیں ایسا نبی جو آنحضرتﷺ کی امت سے ہو اور آپ کی شریعت کا ناسخ نہ ہو۔ آنحضرتﷺ کی امت سے نہ ہو تو ایسے نبی کا آنا آیت خاتم النّبیین کے منافی نہیں۔ ہاںایسے نبی کا آنا جو شریعت کا ناسخ ہو۔ آنحضرتﷺ کی امت سے نہ ہو تو ایسے نبی کا آنا آیت خاتم النّبیین کے واقعی مخالف ہے۔ جیسے حضرت عیسیٰ، حضرت الیاس اور حضرت خضر علیہم السلام آنحضرتﷺ کے عہد نبوت میں پائے جاتے ہیں۔ مگر ان کی نبوت آیت خاتم النّبیین کے منافی نہیں۔ کیونکہ یہ اس وقت آنحضرتﷺ کی امت میں داخل ہیں اور آپ کی شریعت کو منسوخ نہیں کر سکتے۔ بلکہ اسی شریعت پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔ پس جب ان انبیاء علیہم السلام کی نبو ت آیت خاتم النّبیین کے منافی نہیں تو اسی طرح اگر حضرت ابراہیم اور حضرت عمررضی اﷲ عنہ بھی نبی ہو جاتے تو ان کی نبوت بھی آیت خاتم النّبیین کے منافی نہ ہوتی۔ اب اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کے دعویٰ پر کفر کا فتویٰ بالاجماع نقل کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب