احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
{ابن حجر مکی نے جو یہ کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ قضیہ شرطیہ میں مقدم کا وقوع ضروری نہیں ہوتا(لہٰذا نبوت کا ملنا متحقق نہ ہوا نووی اور ابن عبدالبر نے اس حدیث کا انکار اس لئے کیا کہ ان کو اس تاویل کا پتہ نہیں چلا۔ حالانکہ تاویل ظاہر ہے۔ )بالکل بعید ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں امام اس تاویل کو بھی نہ جانتے ہوں بلکہ ان کا انکار اس حالت پر ہے جب مقدم کا وقوع فرض کر لیا جائے۔} یعنی اگر ابراہیم کی زندگی فرض کر لی جاوے تو وہ ضروری نہیں اس کو غلط قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہاں ختم نبوت بھی ایک امر مانع موجود ہے۔ اس عبارت میں دو باتیں ذکر کی ہیں۔ ۱… ان احادیث کی تاویل جس سے غرض یہ ہے کہ نووی اور ابن عبدالبر کے انکار کی تردید کی جائے۔ ۲… اس تاویل کی تردید اور ان کی کلام کا محمل۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان احادیث میں جملہ شرطیہ ہے اور جملہ شرطیہ میں حکم کا تحقق مقدم پر معلق ہے۔ مگر مقدم کا ہونا ضروری نہیں۔ پس ان احادیث سے نبوت کاجاری ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ جس پر امام نووی اور ابن عبدالبر انکار کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام نووی اور ابن عبدالبر اتنے پست دماغ کے آدمی نہیں کہ وہ اس قاعدہ سے غافل ہوں۔ بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا تحقق ابراہیم کی حیات پر معلق ہے۔ اگر زندہ ہوں تو نبی ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہاں ختم نبوت خود ایک مانع موجود ہے۔ مگر میں نے جو پہلے لکھا ہے کہ امام نووی کااعتراض ابن ماجہ کی حدیث پر ہے اور ایک طرح سے (جب نبوت کو اجتباء پر موقوف رکھا جائے) یہ اعتراض درست ہے اور صحابہ کے احوال پر یہ اعتراض درست نہیں۔ کیونکہ ان میں مانع ختم نبوت کو قرار دیا گیا ہے۔ اب ہم آخیر میں پھر ملا علی قاری کا وہ قول (جو آپ نے حضرت ابراہیم اور حضرت عمرؓ کی نبوت کے وقوع کو خاتم النّبیین کے لئے غیر منافی قرار دینے کے بارے میں ذکر کیا ہے) نقل کر کے اس کا جواب بھی ذکر کرتے ہیں۔ ’’قلت ومع ہذا لوعاش ابراہیم وصارنبیا وکذا الوصارعمر نبیا لکان من اتباعہ علیہ السلام کعیسیٰ والخضر و الیاس علیہم السلام فلا ینا قض قولہ تعالیٰ خاتم النّبیین اذلمعنی انہ لا یأتی بعدہ نبی ینسخ ملتہ ولم