احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
سے شرمانا اور پھر اس شرم سے ہیٹی ہوتی دیکھ کر اس پر صرف ایمان لانے کی تاکید کرنا اور اس کی کیفیت اور حقیقت کو حوالہ بخدا کرنا: آہوز تو آموخت بہ ہنگام دویدن رم کردن واستادن وویدن معتقدات اسلام میں اگر کسی بات کی حقیقت اور کیفیت میں بحث اور غور کرنے کی ممانعت ہے تو وہ صرف ایک ذات باری ہے۔ کیونکہ ذات باری کی کیفیت اور حقیقت کو سمجھنا حواس انسانی کے ادراک سے باہر ہے۔ اﷲ تعالیٰ جل شانہ کی ہستی پر ایمان لانا کہ وہ ہے اور ایک ہے، مسلمان ہونے کے لئے کافی ہے۔ ماہیت ذات باری معلوم کرنے کی اور اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح مرزا قادیانی فرماتے ہیں کہ میرے ابن اﷲ اور ابو اﷲ ہونے پر ایمان لاؤ اور یہ ایمان لانا ہی نجات کے لئے کافی ہے۔ اس کی کیفیت اور حقیقت مت پوچھو اور اس پر غور نہ کرو۔ گویا ذات باری کی حقیقت اور مرزا قادیانی کی ابنیت اور ابویت باﷲ ایک رتبہ رکھتی ہیں۔ ان میں غور و فکر کرنا ممنوع ہے اوراس کا ادراک قواے بشری سے باہر ہے۔اگر آپ فرمائیں کہ نہیں ’’انت منی‘‘ کے معنی ایسی اولاد نہیں جیسے ہماری تمہاری ہے۔ مجازاً مراد ہے ’’بمنزلۃ اولادی‘‘ یوں ہی سہی، پر ’’انامنک‘‘ کے کیا معنی ہوںگے؟’’بمنزلہ اولادک‘‘ تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرزا قادیانی خدا کے مجازی بیٹے ہیں۔ اسی طرح نعوذ باﷲ خدا وند عالم و عالمیاں مرزا قادیانی کا مجازی بیٹا ہے۔ سب سے اچھی اوربچاؤ کی تاویل اس الہام کی یہ ہو سکتی ہے کہ مرزا قادیانی کا اس سے مطلب یہ ہے کہ: خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ مگر اس سے بھی ’’انت منی بمنزلۃ اولادی‘‘(دافع البلاء ص۶خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) توشاید ثابت ہو جائے گا۔ مگر ’’انا منک بمنزلۃ اولادک‘‘ ثابت کیونکر ہو سکتا ہے؟ کیونکہ خدا تعالیٰ خالق کل ہونے کی وجہ سے مجازاً باپ کہا جا سکتا ہے اور کل مخلوق عیال اﷲ ہے۔ مگر وہ جو اس کل مخلوق کا پیدا کرنے والا ہے۔ اپنی مخلوق کا بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے۔ یا یہ کہ مرزا قادیانی کا مطلب اس سے ہمہ اوست ہو مگر اس خیال کو تو بھنگیٹر خانوں کے بیٹھنے والے ورق الخیال کی دھن میںزیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: