احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
تمام مخلوق اس کی ذات کا اور اس کی ہستی کا ثبوت ہے۔ کما قال اﷲ تعالیٰ ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون (النحل :۶۹)‘‘ {بیشک غور کرنے والوں کے لئے اس میں عین(قدرت خدا کی بڑی) نشانی ہے۔} تو اس میں اﷲ کی ادنیٰ سے ادنیٰ مخلوق بھی شامل ہے۔ مرزا قادیانی کی کوئی تخصیص نہیں: برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتر یست معرفت کردگار مگر نہیں، مطلب سعدی دیگر ست۔ مرزا قادیانی۔’’انت منی بمنزلۃ اولادی‘‘ (دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) سے ابن اﷲ بننا چاہتے ہیں۔ بننا کیا چاہتے ہیں، بن چکے ہیں۔ اب تو منوانا چاہتے ہیں اور بایں ادّعا کہ ان کے اس قول پر ایمان لانے کا خدا نے حکم دیا ہے۔ پھر تماشہ یہ ہے کہ ابن اﷲ بھی بن کر صبر نہیں آیا۔ آگے فرمایا ہے’’انت منی وانامنک‘‘ (دافع البلاء ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) تو مجھ میں سے اور میں تجھ میں سے۔ مرزا قادیانی خدا سے یا انہی کے الفاظ میں خدا میں سے ہو سکتے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ مرزا قادیانی میں سے کیونکر ہوسکتا ہے؟ جب ان کا خدا میں سے ہونا بقو ل ان کے ’’بمنزلۃ اولادی‘‘ یعنی ابن اﷲ ہوا تو لا محالہ ’’انامنک‘‘ کے معنی ہوں گے ’’ابواﷲ‘‘ جو صریحاً ’’لم یلد ولم یولد‘‘ کے منافی ہے اور یہ ان کو بھی کھٹکی ہے۔ چنانچہ اس کفر صریح سے بچنے کے واسطے (دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) کے حاشیہ میں انہوں نے ’’الغریق یتبشث بالحشیش‘‘(ڈوبتے کو تنکے کا سہارا) بہت کچھ ہاتھ پیر مارے ہیں۔ کبھی اس کا نام مجاز رکھا ہے۔ کبھی استعارہ۔ کبھی متشابہات مگر: مے تراود زسخن آنچہ درآونددل است اپنے خیال کو چھپا نہیں سکے اور فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ خدا بیٹوں سے پاک ہے۔ **یہ فقرہ قبیل مجاز اور استعارہ میں سے ہے۔ اس خدا کے کلام کو ہوشیاری اور احتیاط سے پڑھو اور از قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ۔ اس کی کیفیت میں دخل نہ دو اور حقیقت حوالہ بخدا کرو۔‘‘ (دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) اوّل تو دیکھئے یہ کیسی ظلم کی بات ہے کہ اپنے کلام کو خدا کا کلام کہنا۔ پھر نعوذ باﷲ من ہذہ الکلمات والاعتقادات۔ ابن اﷲ و ابو اﷲ ہونے کا دعویٰ کرنا۔ پھر اس