احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
علی اللمغیبات ومجازفۃ وھجوم علی عظیم من الذین ویحتمل ان یکون استحضر ذلک عن الصحابۃ المذکورین ورواہ عزیز ربھم ممن تاخزعنہم فقال ذلک وقد استنکر قبلہ ابن عبدالبر فی الاستیعاب الحدیث المذکور مع ان الذی نقل عن الصحابۃ المذکورین وانما اتوافیہ یقضیۃ شرطیۃ (جز ۲۵ فتح الباری ص۶۱۳)‘‘ {یہ چند صحیح حدیثیں ان صحابہ سے مروی ہیں میں نہیں جانتا کہ نووی نے ابراہیم مذکورہ کے ترجمہ میں اس پر کیوں انکار کیا اور اتنا مبالغہ کیا، کہا کہ یہ باطل مغیبات ہیں۔ اٹکل اوربڑی بھاری لغزش ہے ممکن ہے نووی صاحب کو ان صحابہ کے قول کا علم ہو مگر پچھلے لوگوں سے نقل کر کے انکار کیا۔ سب سے پہلے ابن عبدالبر نے استعاب میں حدیث مذکور کا انکار کیا ہے۔ حالانکہ صحابہ نے (نبوت کو جاری نہیں مانا بطور شرط کے ان کی نبوت کا ذکر کیا ہے)} حافظ ابن حجر امام نووی اور ابن عبدالبر کے انکار پر تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیونکہ صحابہ کرام سے جو اثار وارد ہوتے ہیں۔ ان کی سندیں صحیح ہیں۔ مگر امام نووی اور ابن عبدالبر کی طرف سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کے اقوال اور ابن ماجہ کی حدیث میں فرق ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث میں مانع ابراہیم کی وفات کو قرار دیا گیا ہے۔ اگر زندہ ہوتے تو ضرور نبی ہوتے۔ حالانکہ ثبوت نبوت کے لئے صرف حیات کافی نہیں۔ اجتباء کی بھی ضرورت ہے اور اجتباء سے مانع یہاں موجود ہے۔ وہ ختم نبوت اورصحابہ کے آثار میں ختم نبوت کو مانع قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر آنحضرتﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی تو سب سے اوّل آنحضرتﷺ کا فرزند ابراہیم اس منصب کے لائق ٹھہرتا۔ اﷲ تعالیٰ اس کو زندہ رکھتا اب چونکہ نبوت ختم ہوچکی ہے۔ اس واسطے اس کی زندگی کو برقرار رکھنا ضروری نہیں ٹھہرایا گیا۔ پس اس لحاظ سے امام نووی اور ابن عبدالبر کا انکار درست ہوا۔ حافظ ابن حجر نے جو اخیر میں جملہ کہا ہے۔ وہی ان کی طرف سے جواب ہے۔ ملا علی قاری نے ابن حجر کی طرف سے اس جواب کی تردید نقل کر کے اس کا رد بھی کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ’’وما قول ابن حجر المکی وتاویلہ ان القضیۃ الشرطیۃ لا تستلزم وقوع للقدم والکارالنووی کا بن عبدالبر لذالک فلقدم ظہور ہذا التاویل وھو ظاہر فبحید جدا ان لایفہم الا مامان الجلیلان مثل ہذہ المقدئحۃ وانما الکلام علی فرض وقوع المقدم فاقہم واﷲ سبحانہ الملم (موضوعات کبیر ص۶۹)‘‘