احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ان کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ابراہیم کی زندگی نبوت کو متعلق ہو تو اس کی وجہ غالباً ہوتی کہ وہ نبی کا بیٹا ہے۔ اگر یہ وجہ ہوتی تو اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ ہر انسان نبی ہو۔ کیونکہ ہمارا سلسلہ نوح علیہ السلام تک پہنچتا ہے اور وہ نبی ہیں۔ یہ اعتراض اسی صورت میں وارد ہوتا ہے جب ابراہیم کے نبی ہونے کی وجہ یہ ہو کہ وہ نبی کا بیٹا ہے اور نبی کا بیٹا نبی ہونا چاہئے۔ اگر ابراہیم کے نبی ہونے کی وجہ یہ ہو کہ اس میں استعداد نبوت ہے اور استعداد بھی ایسی کہ خودبخود سن بلوغ اور نبوت کی عمر پر پہنچنے سے وہ کمال فطری ظاہر ہو جائے جو اس میں موجود ہے۔ تو پھر یہ اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ مگر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ اگر مجرد استعداد نبوت کو مستلزم ہوتی تو عمرؓ بھی نبی ہوتے۔ کیونکہ ان کے متعلق بھی آیا ہے۔ اگر میرے بعد نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے ان میں استعدادنبوت کی تھی۔ اس اعتراض کے جواب کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ استعداد استعداد میں فرق ہے۔ ایک وہ استعداد جس میں نبوت کا جاری ہونا نبوت ملنے کے لئے کافی ہے اور ایک وہ استعداد ہے جس میں سن نبوت کو پہنچنا نبوت پر فائض ہونے کے لئے کافی ہے۔ یہ استعداد وہبی ہے۔ پس نبوت دونوں صورتوں میں وہبی ہوگی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی صورت میں دو طرح سے وہبی ہوئی استعداد اور انتخاب سے دوسری صورت صرف استعداد کی بناء پر وہبی ٹھہری۔ ابن عبداﷲ غالباً دوسری قسم کے قائل نہیں۔ کیونکہ نبوت کی بناء قرآن نے اجتباء پر رکھی ہے اور اجتباء سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ استعداد کے علاوہ انتخاب میں بھی اجتباء کی ضرورت ہے۔ ’’اﷲ یجتبی الیہ من یشاء ویہدی الیہ من ینیب (شوریٰ)‘‘ {ا ﷲ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف چن لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اس کو ہدایت کرتا ہے۔} نبوت کی بناء جب اجتباء پرٹھہری تو اس صورت میں یہ کہنا کہ ابراہیم اگر زندہ رہتے تو ضروری نبی ہوتے، صحیح نہیں۔ کیونکہ نبوت کی بناء محض استعداد پر نہیں۔ بلکہ اجتباء کی بھی ضرورت ہے۔ پس ابراہیم اگر زندہ بھی رہتے تب بھی بدوں اجتباء کے نبی کیسے ہو سکتے تھے؟ مگر ابن عبداﷲ کے اس قول پر صحابہ کے اقوال مذکورہ کی تردید کرنی پڑے گی۔ حالانکہ ان کے اقوال قیاس سے بالاتر ہونے کی بناء پر مرفوع کا حکم رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں’’فہذہ عدۃ احادیث صحیحۃ من ھؤلاء الصحابۃ فلا ادری ماالذی حمل النووی فی ترحبۃ ابراہیم المذکورمن کتاب تہذیب الاسماء وللغات علی استنکار ذالک ومبالغتہ حیث قال ھوبالکل وجسارۃ فی الکلام