احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
موسیٰ فتی اﷲ الذی اشاراﷲ فی کتابہ الی حیاتہ و فرض علینا ان نؤمن بانہ حی فی السماء ولم یمت ولیس من المیتین‘‘ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ سینا میں ہمکلام ہوا اور اس کو اپنے پیاروں سے بنایا۔ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن کریم میں اشارہ ہے کہ وہ آسمان پر زندہ ہے۔ وہ ہرگز نہیں مرا اور نہیں وہ مردوں سے۔ (حوالہ نور الحق ج اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ص۶۹) مولانا احمد علی قادیانی صاحب! جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے انڈین مسیح کے نزدیک آسمان پر زندہ ہیں تو کیا انہوں نے حضرت رسول خداﷺ کی بیعت کرلی ہے۔ اگر نہیں کی تو وہ کیونکرزندہ ہیں؟ پس اس طرح بغیر بیعت کئے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آپ سمجھ لیجئے۔ مولانا احمد علی صاحب! حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو رسول خداﷺ کی بیعت کرنے کا شرف معراج کی رات حاصل ہو چکا ہے اور جماعت قادیانی کو بھی یہ امر تسلیم ہے کہ معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے رسول خداﷺ کی ملاقات ہوئی اور جب ملاقات ہوئی تو کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اﷲ تعالیٰ نے جو یہ عہد لیا ہوا تھا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول خدا ﷺ کو بھیج دوں تو ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا۔ کیا اپنا عہد پورا نہیں کیا ہوگا؟ ضرور کیاہوگا۔ کیونکہ کوئی نبی بھی اپنے وعدے کے خلاف عمل نہیں کر سکتا۔ لہٰذ امذکورہ بالا تشریحات سے معلوم ہواکہ حضرت ابن مریم علیہ السلام بلا شک آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح زندہ ہیں جو کہ قرب قیامت میں ان کا نزول ہوگا۔ جواب دوم مولانا احمدعلی صاحب! جو سورئہ احزاب کی آیت آپ نے پیش کی ہے کہ رسول خداﷺ سے بھی یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ کے بعد آنے والے نبی کے متعلق لوگوں کو اطلاع دینا۔ اگر حضورﷺ کے بعد نبوت ختم تھی تو پھر آپ سے عہد کیوں لیا گیا؟ اس آیت میں اس عہد کاہرگز ذکر نہیں۔ بلکہ یہ عہد لیا گیا تھا کہ تمہارا سب نبیوں کا ایک ہی دین ہے۔ اس میں تفرقہ بازی نہ کرنا۔ جیسا کہ قرآن کریم نے دوسری جگہ اس آیت کی تفسیر بیان فرمائی ہے، ملاحظہ کیجئے۔ ’’شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوافیہ