احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
بانسبت عذاب لانے کے ہے۔ یعنی رسول عذاب نہیں لا سکتا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ رسول کا نہیں۔ اس کا کام صرف تبشیر وانذار ہے۔ اس آیت سے جو پہلی آیت ہے اس سے یہ معنی بالکل کھل جاتا ہے وہ یہ ہے۔ ’’قل ارایتکم ان اتاکم عذاب اﷲ بغتۃ اوجہرۃ ہل یھلک الا القوم الظالمون(انعام:۴۷) ‘‘ {مجھے بتاؤ اگر اﷲ کا عذاب ناگہان یا دیکھتے دیکھتے آ جاوے تو ظالم قوم کے سوا کو ن ہلاک ہوگا۔} ایک دوسری امت بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ نبی نفع اورنقصان کا مالک نہیں۔ صرف بشیر ونذیر ہے’’قل لااملک لنفسی نفعا ولا ضرالاما شاء اﷲ ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر ومامسنی السوء ان انا الانذیر وبشیر لقوم یؤمنون (اعراف:۱۸۸)‘‘ {کہ میں تو اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ مگر جو اﷲ چاہے۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت خیر (مال) جمع کرلیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو صرف مؤمنوں کے لئے نذیر بشیر ہوں۔} تبشیر و انذار اگرچہ لوازم نبوت سے ہے۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تبشیروانذار نبوت کی جزو ہو۔ کیونکہ ہر لازم ملزوم کی جزو نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ اس کو عین نبوت قرار دیا جائے۔ جیسے ہر رسول بشری کے لئے رجل(مرد) ہوناضروری ہے۔ مگر رجولیت جزو نبوت نہیں۔ قرآن مجید میں ہے’’وما ارسلنا قبلک الارجالا نوحی الیہم (انبیا:۷) ‘‘ {ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں، سب مرد تھے۔} ایک اور آیت میں ہے ’’وما ارسلنا قبلک من المرسلین الّا انہم لیأ کلون الطعام و یمشون فی الاسواق (فرقان:۲۰)‘‘{ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں۔ وہ کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے۔} اس آیت میں ہر رسول کے لئے کھانا اوربازار میں چلنا لازم قرار دیا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر کھانے والا اوربازاروں میں چلنے والا رسول ہو۔ بلکہ یہ بھی لازم نہیں آتا کہ کھانا اور بازار میں چلنا نبوت کی خیر یا اس کا عین ہو۔ ساتویں حدیث جس میں حضرت عمرؓ کی نبوت کا ذکر ہے۔