احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
{ہمارے استاذ(ابن تیمیہ) فرماتے ہیں کہ صدیق محدث سے زیادہ کامل ہے۔ کمال صدیقیت اور متابعت کی بناء پر اس کو تحدیث الہام اور کشف کی حاجت نہیں کیونکہ اس کا دل بتمامہ سر اورباطن رسول کے تابع ہے۔ اس وجہ سے بے نیاز ہو گیا ہے۔} بہر کیف محدث کا دروازہ اگر اس امت کے لئے کھلا بھی ہو تو بھی مبشرات کی حدیث کے منافی نہیں۔ کیونکہ تحدیث کا جزو نبوت ہونا ثابت نہیں۔ نہ اس کا ان مبشرات میں داخل ہونا ثابت ہے۔ جو نبوت کی جزو ہیں۔ اگر تحدیث وغیرہ امور کو ان مبشرات میں داخل کیا جائے جو نبوت کے جز ہیں۔ تو بہر کیف ایسی جزو ہوں گے۔ جن کے تحقق سے نبوت کا تحقق لازم نہیں آئے گا۔ کیونکہ اس حدیث میں نبوت سے مبشرات کو مستثنیٰ قرار دے کر یہ بھی فرمایا ہے کہ میرے بعد نہ کوئی نبی ہے اور نہ رسول اور پہلے یہ بھی فرمایا کہ نبوت اور رسالت ختم ہو چکی ہے۔کسی جزو کے باقی رہنے سے کل کا باقی رہنا لازم نہیں آتا۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل حدیث ہے۔ ’’عن عبداﷲ بن سرجس ان النبیﷺ قال السمت الحسن والتورۃ ولا قتصاوجزء من اربع وعشرین جزء من النبوۃ (رواہ الترمذی)‘‘ {عبداﷲ بن سرجس سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اچھی سیرت کام میں ذرا تاخیر کرتا اور درمیانہ روی نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے۔} اب ظاہر ہے کہ جن چیزوں کو اس حدیث میں جز نبوت قرار دیا گیا ہے۔ ان کے تحقق سے نبوت متحقق نہیں ہوتی۔ ۳… جن لوگوں نے اس امت سے الہام کا دعویٰ کیا ہے۔ تو ان کے دعویٰ کا صدق کہاں سے معدوم ہوا۔ ممکن ہے وہ اس معاملہ میں غلطی پر ہوں۔ حضر ت عمرؓ جن کو اگر سلسلہ تحدیث کا جاری سید المحدثین کہنا چاہئے۔ کبھی تحدیث و الہام میں عصمت کا دعویٰ نہیں کیا تو دوسرے کا کیا حق ہے۔ حافظ ابن قیم نے ان کا ذکر اس طرح کیاہے۔ ’’وکان ہذا المحدث یعرض مایحدث بہ علی ماجاء بہ الرسول فان واقفہ قبلہ والارد الی ان قال واتاما یقولہ کثیر من اصحاب الخیالات و الجہالات حدثنی قلبی عن ربی‘‘ یہ محدث (حضرت عمرؓ) اپنی تحدیث کو رسول کی شریعت پر پیش کرتے اگر موافق ہوتا تو قبول کرتے ورنہ رد کرتے۔باقی رہی یہ بات جو خیالات میں محو ہونے والے اور جاہل لوگ کہتے ہیں کہ میرے دل نے میرے رب سے حدیث بیان کی۔