احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یقول جزم بانہم کائنون فی الامم قبلنا وعلق وجودہم فی ہذہ الامۃ بان الشرطیہ مع انہا افضل الامم لا حتیاج الامم قبلنا الیھم واستغناء ہذہ الامۃ عنہم بکمال نبیھا ورسالتہ محکم محوج اﷲ الامتہ بعدہ الی محدث ولا ملہم ولا صاحب کشف ولا الی منام فہذا التعلیق لکمال الامتہ واستغنائھا لا لنقصھا (مدارج السالکین ج۱ص۲۲)‘‘ {اور کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عمرؓ نے محدثیت کا دعویٰ کیا تھا۔ بلکہ ایک روز آپؓ کے کاتب نے یہ لکھا کہ وہ یہ حکم ہے جو اﷲ نے امیر المومنین عمر بن خطابؓ کو بتلایا۔ آپ نے کہا اس کو مٹا دو اور یہ دیکھو کہ یہ وہ حکم ہے جو عمر بن خطابؓ نے سمجھا اگر صحیح ہے تو اﷲ سے ہے۔ اگر غلط ہے تو مجھ سے اور شیطان سے ہے۔ (حافظ ابن قیم فرماتے ہیں) میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے سنا،فرماتے تھے پہلی امتوں میں محدثوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اس امت میں یہ کہا ہے اگر ہوئے، حالانکہ یہ امت افضل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی امتوں کو ان کی ضرورت تھی اور یہ امت اپنے نبی کے کمال اور اس کی رسالت کی بناء پر اس سے بے نیاز ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعد اﷲ نے امت کو کسی محدث، ملہم،صاحب کشف اورخواب کا محتاج نہیں بنایا۔ پس یہ کہنا (اگر ہوئے) امت کے کمال اور بے نیاز ہونے کی بناء پر ہے، نہ نقص کی بناء پر اس صورت میں۔} یہ حدیث اس آیت کی طرح ہوئی’’لوکان فیہما اٰلہۃ الا اﷲ لفسدتا (انبیائ:۲۲)‘‘{اگر آسمان و زمین میں اﷲ کے سوا معبود ہوتے تو بگڑ جاتے۔} جیسا کہ اس آیت میں فساد کی نفی سے (معبودات متعددہ ) کی نفی مفہوم ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ سے جب محدث کی نفی ہوئی۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ اگرمیری امت میں کوئی محدث ہوا تو عمرؓ ہوگا۔ یعنی جب پہلی امتوں میں محدث ہوتے ہیں تو اس امت میں ان کی گنجائش ہے۔ مگر اس امت کو چونکہ ان کی ضرورت نہیں۔ اس واسطے صرف عمرؓ ہوگا۔ یا یہ مطلب ہے کہ عمرؓ سب سے اول مرتبہ میں ہوگا اور ضرور ہوگا وہ اس سلسلہ کا سید اور معیار ہوگا۔ اگرچہ صدیق محدث سے بڑا ہوتا ہے۔ مگر اس کو کمال متابعت کی بناء پر محدث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ابن قیم فرماتے ہیں’’قال شیخنا والصدیق اکمل من المحدث لانہ استغنیٰ بکمال صدیقیتہ ومتابعتہ عن التحدیث والالھام والکشف فانہ قد سلم قلبہ کلہ سرہ و باطنہ للرسول فاستغنیٰ بہ (مدارج ص۱۲ج۱)‘‘