احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
(ابن کثیر)‘‘ {مومن کو موت کے وقت اورقبر میں اور قیامت کے دن اٹھنے کے وقت خوش ہیں۔} ابن کثیرفرماتے ہیں یہ قول سب اقوال کا جامع ہے اور بہت اچھا ہے اور واقع میں بھی اسی طرح ہے۔ اگر نزول ملائکہ کو موت سے پہلے بھی تسلیم کیا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ملائکہ کی خوشخبری جز نبوت ہو۔ صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ مومن کو زندگی میں فرشتے خوشخبری دیتے ہیں اور مومن کی رؤیا کی (جو خوشخبری کی صورت ہے) وہی جزو نبوت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔ ۲… امت میں وحی و الہام کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ ایک مجمل لفظ ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ وحی نبوت تو منقطع ہو چکی ہے مگر کشوف و رویا و الہام یا تلقی الغیب کی بعض صورتیں باقی ہیں۔ جن کو وحی نبوت سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ کیونکہ انہیں حدیث میں یہ نہیں آتا کہ نبوت جاری ہے یا کشوف و الہام یا تلقی عن الغیب کی بعض صورتیں جو امت میں جاری ہیں۔ یہ نبوت کے اجزاء ہیں۔ پس یہ احادیث (جن میں امور مذکورہ کے جاری رہنے کا ذکر ہے) حدیث مبشرات کے ذکر کردہ معنی کے مخالف نہ ہوئیں۔ پھر جن احادیث میں محدث یا مکلم کا ذکر ہے۔ ان میں ایسے الفاظ ہیں۔ جو تردد کے لئے بولے جاتے ہیں۔ ان سے محدث یا مکلم کا ہونا یقینی طور پرثابت نہیں ہوتا۔ حدیث محدث ’’عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ ولقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون فان یکن فی امتی احد فانہ عمرؓ متفق علیہ‘‘ {ابوہریرہؓ کہتے ہیں رسول اﷲﷺ نے فرمایا، پہلی امتوں میں محدث گزرے ہیں۔ اگر میری امت میں کوئی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔} اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی محدث اس امت میں ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر عمرؓ نہ ہوئے تو کوئی بھی نہ ہوگا۔ حافظ ابن قیم فرماتے ہیں۔ ’’وما ثبت فی شی من الروایات ان عمر کان یدعی التحدیث بل کتب کتابہ یوما کاتبہ ہذا مااری اﷲ امیر المومنین عمر بن الخطاب فقال لا محہ واکتب ہذا رای عمر بن الخطاب فان کان صوابا فمن اﷲ وان یکن خطاء فمنی ومن الشیطان وانی سمعت شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ