احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اوتوا العلم درجات (المجادلۃ:۱۱)‘‘ {اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جس وقت کہا جائے واسطے تمہارے کشادگی کرو بیچ مجلسوں کے۔ پس کشادہ کرو کشادہ کرے گا واسطے تمہارے اﷲ تعالیٰ اور جس وقت کہا جائے اٹھ کھڑے ہو، پس کھڑے ہو جاؤ۔ بلند کرے گا اﷲ ان لوگوں کو جو ایمان لائے تم میں سے اور ان لوگو ں کو کہ کر دیئے گئے علم درجے۔} مولانا احمد علی قادیانی نے اس آیت میں بھی بڑی فریب دہی سے کام لیا ہے۔ کیونکہ مولانا موصوف نے آدھی آیت کو تو لوگوں کے پیش کردیااور آدھی آیت اس لئے چھوڑ دی کہ اس میں درجات کا ذکر ہے۔ یعنی ’’یرفع اﷲ الذین امنوا‘‘کا صلہ ’’درجٰت‘‘ موجود ہے اور آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں رفع کا صلہ الیٰ موجود ہے۔ جو جسم مع الروح کے مرفوع ہونے پر برہان ہے۔ خلاصہ… ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے ظاہر ہو گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کوجس کا نام عیسیٰ ہے، زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ جواب چہارم ’’فی صحف…مکرمۃ عند اﷲ تعالیٰ مرفوعۃ فی السماء مطہرۃ‘‘ {بیچ صحیفوں تعظیم کئے گیئوں کے نزدیک اﷲ تعالیٰ کے بلند کئے گئے اورپاک کئے گئے۔} (تفسیر جلالین ص۴۹۰) مولانا احمد علی قادیانی کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس آیت پیش کردہ کے اندر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے صحیفوں کاذکر بیان فرمایا ہے جو کہ نزدیک اﷲ تعالیٰ کے لوح محفوظ میںموجود ہیں۔ اس سے بھی آپ کا مطلب حاصل نہیں ہوسکتا۔ بلکہ جماعت قادیانی کے عقیدہ کی بیخ کنی ہوتی ہے۔ رفع پر تو مولانا احمد علی قادیانی کا بھی اتفاق ہے مگر فرق اتنا ہے کہ وہ رفع سے مراد رفع درجات سمجھتے ہیں ’’رفع جسم‘‘ نہیں۔ اگر رفع سے مراد رفع درجات سمجھا جائے تو یہودیوں کی آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے تردید نہیں ہوتی۔ بلکہ تائیدہوتی ہے۔ رفع درجات تو تب ہو سکتا ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا ہو اور قتل کیا ہو۔ کیونکہ ہر عقلمند آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کودینداری کے باعث آپ کو مقتول یا مصلوب کیا ہوگا اورجب دینداری کے باعث آپ مقتول یا مصلوب ہوئے توبیشک رفع درجات ہو سکتا ہے۔ اس کے بغیر ہرگز نہیں۔ جیسا کہ شہداء کی بابت اﷲ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کے اندر عام طورپر بلندی مراتب کی خبر دی ہے۔