احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
خاکی جسم کے ساتھ زمین پر رہو گے، یہاں تک کہ اپنی تمتع کے دن پورے کر کے مر جاؤ گے۔} ’’یہ آیت جسم خاکی کو آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔ کیونکہ اول تو یہاں’’لکم‘‘ فائدہ تخصیص کا دیتا ہے۔ دوسرے ’’فی الارض‘‘ ظرف مقدم ہو کر اس بات پر بصراحت دلالت کرتا ہے کہ جسم خاکی آسمان پر نہیں جا سکتا۔ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام بھی اس قانون کے تابع تھے۔ اس لئے ثابت ہواکہ آپ بھی عام انسانوں کی طرح زمین پر ہی طبعی عمر پوری کرکے فوت ہو چکے ہیں۔‘‘ (حوالہ نصرۃ الحق ص۸مصنفہ احمد علی شاہ قادیانی) جواب اوّل ’’ولکم فیہا منافع ومشارب افلا تشکرون‘‘{اور تمہارے لئے ( ان چار پاؤں میں) منافع اور پینے کے لئے دودھ ہے۔ کیا پس نہیں شکرکرتے۔} اگر آیت’’ولکم فی الارض‘‘ سے جسم خاکی کا آسمان پر جانا منع ہے تو آیت ہذا میں سوائے چار پاؤں کے دودھ اور منافع دیگرکسی چیز سے ہمیں حاصل نہیں ہوسکتا اور ان کے سوا اور کسی چیز میں نہ تو منافع اور نہ کسی اور چیزوں کا دودھ استعمال کرسکتے ہیں۔ بلکہ تمام دنیا کے پانی پینے بھی منع ہو گئے۔ کیونکہ پیش کردہ آیت میں متبدا مؤخر ہے تو ہذا آیت میںمنافع اور مشارب بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ حالانکہ ہم کنوؤں اور نہروں اور تالابوں وغیرہ سے پانی پیتے ہیں اور جملہ اشیاء سے نفع حاصل کرتے ہیں۔ چار پاؤں کی کوئی خصوصیت نہیں۔ کیونکہ بقول آپ کے اس آیت میں حصر ہے۔ سوائے چار پاؤں کے ہمیں اور کسی چیز کا نفع حاصل نہیں۔ خواہ کوئی بچے کی ماں ہو وہ دودھ نہیں پلا سکتی۔ کیونکہ مشارب کا لفظ اس سے بھی روکتا ہے۔ اگر ’’لکم‘‘ فائدہ حصر کا دیتا ہے تو غالباً یہ حصر مسند الیہ ’’مستقرا‘‘ کا مسند ہو گا۔ جیسا کہ مختصر معانی (ص۱۰۳)اور مطول سے مفہوم ہوتا ہے۔ تو بتلائیے اس حصر کا مطلب کیا ہوگا اور آیت پیش کردہ کے کیا معنی ہوں گے۔ وہی جو مختصر معانی میں لکھے ہیں۔ ’’لافیہا غول بخلاف خمور الدنیا فان فیہا غول‘‘(حوالہ مختصر معانی ص۱۰۳)یعنی تمہارے لئے ہی زمین میں مستقراء جگہ ہے نہ کہ کسی اور جاندار کے لئے۔ پھر بھلا حصر مذکورہ سے سوائے انسان کے جو لکم کے مخاطب ہیں۔ کسی جاندار کی جگہ نہیں۔ ہاں اگر آپ کے ایجاد کردہ معنی ہوتے تو بیشک کلام خداوندی میں ’’فی الارض‘‘ مقدم ہوتا اور آیت پیش کردہ کی ترتیب یوں ہوتی۔