احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
’’واذیمکربک الذین کفروا لیثبتوک اویقتلوک اویخرجوک ویمکرون ویمکراﷲ، واﷲ خیر الماکرین(الانفال:۳۰)‘‘ {اور جس وقت مکر کرتے تھے ساتھ تیرے وہ لوگ کہ کافر ہوئے کہ پکڑ رکھیں تجھ کو یا قتل کریں تجھ کو یا نکال دیں تجھ کو اور مکر کرتے تھے، اور تدبیر کی اﷲ تبارک وتعالیٰ نے، اور اﷲ تعالیٰ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔} مولانا احمد علی صاحب! کفار مکہ نے بھی یہود کی طرح یہ مکر کیا تھا کہ رسول اکرمﷺ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہر خاندان سے ایک ایک آدمی بلوا کر آنحضرتﷺ کے مکان کے چاروں طرف پہرے بٹھا دیئے اور ان کو یہ نصیحت کی گئی کہ جب رسول خداﷺ مکان سے باہر نکلیں تو ان کو فوراً قتل کر دیا جائے۔ مگر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کفار مکہ کا تمام مشورہ بذریعہ جبرئیل علیہ السلام کے حضورﷺ کے پاس پہنچاکر یہ نصیحت کر دی کہ آپﷺ یہاں سے مدینہ شریف کو تشریف لے جائیں۔ چنانچہ رسول خداﷺ اپنے گھر سے نکل کر غار حرا میں تشریف لے گئے۔ مگر ان کفار کے پہرہ داروں کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوا کہ حضورﷺ کس وقت تشریف لے گئے۔ اسی طرح یہودیوں کو بھی علم نہیں ہوا کہ حضرت ابن مریم علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے اور ان کے ایک آدمی پر اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مشابہت ڈال دی۔ یہودیوں نے اس کو حضرت ابن مریم علیہ السلام سمجھ کر قتل کر دیا۔ جس کے وہ آج بھی قائل ہیں۔ اگر آپ کہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی رسول اﷲﷺ کی طرح زمین پر کیوں نہ رکھا گیا۔ یہ کوئی مصلحت ہوگی جو کہ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ اس نے کسی نبی کو کوئی معجزے عطاء فرمائے اور کسی کو کوئی۔ اسی طرح کسی کو کسی طرح کفار سے بچایا اورر کسی کو کسی طرح۔یہ اس کی مرضی ہے جو چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اس قسم کے اﷲ تبارک وتعالیٰ کی ذات پراعتراض کریں کہ اس کو کیوں زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور اس کی مشابہت کیوں کسی آدمی پر ڈال دی؟ مولاناصاحب!آئیے کہ میں آپ کو اکثر مفسرین سے اس بات کی شہادت کرا دیتا ہوں، ملاحظہ ہو: ’’ومکروا، ارادوایعنی الیہود قتل عیسیٰ، ومکراﷲ اراداﷲ قتل صاحبہم تطیانوس واﷲ خیر الماکرین ‘‘{مکر کیا یعنی ارادہ کیا یہود نے حضرت عیسیٰ