احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
تو نے مجھے قبض کر لیا تھا۔ پھر تھا تو نگہبان اوپر میری امت کے۔ بیشک ابن مریم علیہ السلام توفیتنی سے تانزول تک اپنی امت کی گمراہی سے بے خبر تھے او ر ابن مریم علیہ السلام کی گواہی بھی امت کے اوپر اس عرصہ تک کی ہے جب تک ان میں موجود رہے۔ اگر اب نزول کے وقت کوئی عیسائی یہ کہہ بھی دے گا کہ ابن مریم آپ نہیںبلکہ ابن مریم تو خدا کا بیٹا ہے۔ یا ویسے اطلاع ہو جائے گی کہ آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کی امت نے آپ کو اور ماں مریم کو معبود پکارا تھا۔ تو کیا اعتراض، ابن مریم کی گواہی تو صرف اپنی امت پر اس عرصہ تک کی ہے۔ جب تک ان میں رہے۔ اب جب دوبارہ نزول ہو گا۔ تو ان کی امت کی طرف نہیں۔ بلکہ امت محمدیہ کی طرف تشریف لائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں۔ اگر ابن مریم علیہ السلام قیامت کے روز دربار عالیہ میں یہ بیان دیتے کہ ’’وکنت علیھم شہیدامادمت حیا‘‘ یعنی میں گواہ ہوں اوپر ان کے جب تک رہا ہوں میں جیتا۔تو بیشک ابن مریم فوت تھے۔ پھر دوبارہ آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہتی۔ لیکن قرآن مجید نے ’’وکنت علیھم شہیدا مادمت فیھم‘‘ جو بیان کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ زندہ ہیں۔ کیونکہ آپ کی گواہی صرف اس عرصہ تک کی ہے۔ جب تک ان میں رہے او ر جب قبض کر لئے گئے تو پھر باری تعالیٰ کی نگہبانی عائد ہو گئی۔ رہا ’’توفیتنی‘‘ کے متعلق آپ کا اعتراض کہ اس کا معنی موت ہے، ہرگز نہیں۔ آپ قرآن مجید دیکھئے:’’وان کل لما لیوفینھم ربک اعمالھم (ھود:۱۱۱)‘‘{اور تحقیق ہر ایک جب آوے گا روبرو پروردگار کے البتہ پورادے گا ان کو رب تیرا عمل ان کے۔} مرزائیو! پورے عمل دینے کا وعدہ اﷲ تعالیٰ کرتا ہے نہ یہ کہ فوت کروں گا عمل ان کے۔ دیکھئے او ر غور کیجئے الجواب محمدیؐ دوئم ’’ولکل درجٰت مما عملواولیو فیھم اعمالھم(الاحقاف:۱۹)‘‘{اور واسطے ہر ایک کے درجے ہیں جو کیا انہوں نے اور یہ کہ پورا دے گا ان کو عمل ان کا۔} مرزائیو! ہر ایک آدمی کا جو عمل اچھا یا برا کیا ہوگا، برابر ملے گا اس کو قیامت کے روز۔ الجواب محمدیؐ سوئم ’’یومئذ یوفیھم اﷲ دینہم الحق ویعلمون ان اﷲ ھوالحق المبین