احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یعنی یہ حکومت کا وعدہ اس لئے ہے کہ دین عملی شکل میں دنیا میں جاری کیا جائے تاکہ رات دن کے عمل اور حکومت کی سرپرستی سے پورے طور محفوظ ہو جائے۔ انہی وجوہ مذکورہ بالا (۱)عموم رسولت۔ (۲) دین کی جامعیت اور کمال۔ (۳) دین کا عام فہم ہونا۔ (۴) رد وبدل سے محفوظ ہونے کی بناء پر آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین قراردیا۔ ۱… ’’ماکان محمدابااحد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النّبیین وکان اﷲ بکل شی علیما (احزاب:۴۰)‘‘ {محمدؐ تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں۔ لیکن اﷲ کا رسول اور سب نبیوں سے آخری نبی ہے اور اﷲ ہر شے سے واقف ہے۔ یعنی قیامت تک جس قدر ضرورتیں پیش آنے والی تھیں۔ جن میں دین کے بارے میں وحی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سب پوری کر دی گئیں۔} آیت کی تشریح خاتم کا لفظ دو طرح پڑھا جاتا ہے۔ ایک خاتم تاء کے کسر سے اس میں دو احتمال ہیں۔ (۱) اسم فاعل ہو جس کے معنی میں ختم کرنے والا۔ (۲) اسم آلہ خلاف قیاس ہو جس کے معنی ہیں ختم کا آلہ یعنی آپﷺ کے ساتھ نبی ختم کر دیئے گئے۔ ابن جریر میں ہے ’’بکسر التاء ین خاتم النّبیین بمعنی انہ ختم النّبیین‘‘ کسرہ تا سے خاتم النّبیین کا یہ معنی ہے کہ آپ نے نبی ختم کر دیئے۔ عبداﷲ کی قرأت میں ہے ’’ولکن نبیا ختم النّبیین لکن‘‘ نبی ہے جس نے نبی ختم کر دیئے۔ خاتم اگر فتح تا سے پڑھا جائے تو اس صورت میں اسم آلہ خلاف قیاس ہو گا۔ اس کے دو معنی ہوں گے۔ (۱) آخر کے، چنانچہ کہا ہے ’’خاتم النّبیین بفتح التاء بمعنی انہ اخر النّبیین، خاتم النّبیین‘‘اگر فتح تاء سے پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے آخری نبی سب سے پیچھے آنے والا۔ قتادہ نے بھی ’’خاتم النّبیین‘‘ کا معنی ’’اٰخر النّبیین‘‘ کیا ہے۔ (۲)مہر کے معنی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپﷺ بمنزلہ مہر کے ہیں۔ اب نبوت پر مہر لگا دی گئی۔ چنانچہ لکھا ہے ’’وخاتم النّبیین الذی ختم النبوۃ فطبع علیہا فلا تفتح لا حد بعدہ الی قیام الساعتہ‘‘ {آپ خاتم النبیین ہیں۔ آپ نے نبوت پر مہر لگا دی۔ ایسی مہر لگائی ہے کہ قیامت تک اب کسی کے لئے نہیں کھلے گی ۔}