احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کلیم اﷲ کا دشمن فرعون تھا۔ ’’واغرقنا ال فرعون وانتم تنظرون‘‘فرعون غرق ہو گیا حضرت کلیم اﷲ زندہ تھے اور ططیانوس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دشمن تھا۔ یہودیوں نے قتل کر دیا اور آپ آسمان پر اٹھائے گئے۔ کیونکہ یہ سنت قدیمہ چلی آ رہی ہے اور محمد رسولﷺ کا دشمن ابوجہل تھا۔ جنگ بدر میں قتل کر دیا گیا اور اﷲ تعالیٰ کے رسول زندہ تھے۔ مرزائیو!اس عقلی نقلی دلائل سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ’’متوفیک‘‘ کا معنی ہرگز موت نہیں۔ بلکہ قبض کرنے والا ہوں تجھ کو درست ہے۔ آئیے آپ کو اب معتبر تفاسیر سے بھی متوفیک کے معنی موت نہیں۔شہادت کرا دیتا ہوں تاکہ تمہارے عقائد صحیح اور درست ہو جائیں کہ واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور دوبارہ پھر نزول فرمائیںگے۔ تفسیر ابن عباس نمبر۱ حضرت ابن عباسؓ اپنی (تفسیر ابن عباس ص۶۲،۶۳) میں زیر آیت :’’مکروا ومکر اﷲ (آل عمران:۵۴)‘‘ راقم ہیں، ملاحظہ ہو’’ومکرو ارادوا یعنی الیھود قتل عیسیٰ ومکراﷲ اراداﷲ قتل صاحبھم تطیانوس واﷲ خیر الماکرین اقوی المریدین ویقال افضل الصالعین اذ قال اﷲ یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک مقدم و مؤخر یقول انی رافعک الیّ ومطھرک منجیک من الذین کفروا بک‘‘ مکر کیا یہود نے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے کا اور اﷲ تعالیٰ بڑی تدبیریں کرنے والا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ان کے ططیانوس کے قتل کردینے کا اور کہا اﷲ تعالیٰ نے ’’انی متوفیک ورافعک‘‘ شروع او رآخر یعنی ان دونوں جملوں کا یہی مطلب ہے کہ میں اٹھانے والا ہوں تجھ کو طرف اپنی و مطہرک کا معنی ہے کہ نجات دینے والا ہوں تجھ کو یہود سے جو کفر کرتے ہیں ساتھ تیرے۔ مرزائیو! مطلب حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بھی متوفیک کا معنی موت نہیں کرتے اور حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں۔ صحابہ کرامؓ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور جماعت صحابہؓ کی اتباع کرنا لازمی ہے اس لئے قال رسول اﷲﷺ ’’من کان علی مثل ما انا علیہ واصحابی‘‘ آپﷺ نے فرمایا، میرے بعد میری امت اوپر۷۳ فرقوں کے جدا ہوگی۔ سب دوزخی ہوں گے لیکن وہ فرقہ نجات پانے کے قابل ہوگا جو میری اور میرے صحابہ کی اتباع پر قائم ہو