احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
ہونے کا تھا۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان کے قول’’ان قتلنا‘‘ کی تردید نہیں کی کہ یہودیوں نے کسی آدمی کو بھی قتل نہیں کیا اور نہ صلیب دیا بلکہ ’’وما قتلوہ وماصلبوہ‘ ‘ سے صرف اس بات کی نفی کی ہے کہ ان لوگوں نے میرے رسول کو نہ تو قتل ہی کیا اور نہ سولی دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی مشابہت شکل کو صلیب دے کر ’’انا قتلنا‘‘ قول کے قائل ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیت سے ظاہر ہے اور لیکن شبہ ڈال دیا میں نے واسطے ان کے ططیانوس کا اس لئے وہ اختلاف میں ہیں اور شک میں ہیں کہ ہم نے ابن مریم علیہ السلام کو ہی صلیب پر دیا ہے۔ حالانکہ ان کومسیح ابن مریم کے حالات سے کچھ بھی علم نہیں۔ وہ صرف پیروی کرتے ہیں ظن کی۔ ’’وما قتلوہ یقینًا‘‘ اے میرے حبیب یہ یقین کیجئے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو ان لوگوں نے ہرگز قتل نہیں کیا۔ وہ اس کے بجائے ططیانوس کو قتل کر چکے ہیں۔ ان کو یہی شبہ ہے بلکہ میں نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور میں زبردست حکمت والا ہوں۔ ان کی تجویز اور صلاح یہی تھی کہ پکڑ کر مکان سے صلیب دے دیا جائے۔ میں نے ان کے مکر و فریب کو رد کر کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو آسمان پر اٹھا لیا اور ان کے دشمن ططیانوس کی شکل بدلی تھی کہ یہودیوں نے ابن مریم سمجھ کر اس کو قتل کر دیا جس کے وہ آج تک قائل ہیں۔ ’’انا قتلنا المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اﷲ‘‘ یہی اﷲ وتبارک وتعالیٰ کی زبردست حکمت ہے۔ مرزائیو! آپ ططیانوس کاصلیب دیئے جانا سن کر افسوس کرتے ہوگے کہ وہ کیوں صلیب دیا گیا۔ یہ بھی قانون الٰہی ہے آؤ میں آپ کے سامنے قرآن مجید پیش کرتاہوں، ملاحظہ ہو: ’’ولایحیق المکر السّیّ الا باھلہ (فاطر:۴۳)‘‘{اور نہیں گھیرتا برامکر مگر کرنے والوں کو۔} مرزائیو! قرآن مجید کی شہادت ہمارے حق میں گزری ہے اس لئے کہ ططیانوس نے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑ کر سولی دینے کی تجویزیں اپنی قوم سے پاس کرائی تھیں۔ جو اس کے پیش آگئیں۔ کیونکہ یہ قانون الٰہی ہے۔ دوسرے نبی کا اس کے زمانے میں ایک دشمن ضرور ہوتا رہا ہے اور دشمن کو اﷲ تعالیٰ پہلے ہلاک کرتا آیا جیسے قرآن مجید بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے۔ الجواب نمبر۹ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اﷲ کا دشمن نمرود بن کنعان تھا۔ آپ سے پہلے ہلاک ہوا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام زندہ تھے اور حضرت داؤد علیہ السلام کا دشمن جالوت تھا، پہلے قتل ہوا۔ ’’وقتل داؤد جالوت ‘‘{جیسے قتل کیا داؤد نے جالوت کو آپ زندہ تھے۔}حضرت موسیٰ