احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
میرے خیال میں اب آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ صیغہ جمع کتنے آدمیوں سے استعمال کیاجاتا ہے۔ جیسے ’’ولک‘‘صیغہ واحد ایک مرد کے لئے استعمال ہے۔’’ولکما‘‘ دو مردوں پراور ’’ولکم‘‘ تین مردوں سے لے کر ہزاروں،لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں تک استعمال کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ’’ولکم‘‘ جو صیغہ جمع حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر استعمال کیا ہے۔ آؤ میں آپ کو قرآن مجید سے سمجھا دیتا ہوں۔ ملاحظہ ہو، ساری آیت پڑھ کر آپ کے سامنے پیش کرتاہوں۔ انشاء اﷲ پھر آپ جلدی سمجھ جاؤ گے۔ آئیے قرآن مجیدفرماتا ہے: ’’وقلنا یادم اسکن انت وزوجک الجنۃ وکلا منھا رغداً حیث شئتما ولا تقرباہذہ الشجرۃ فتکونا من الظالمین فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کان فیہ وقلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدّو ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین (البقرۃ:۳۶)‘‘{اﷲ، کہاہم نے اے آدم رہ تو اور بیوی تیری بہشت میں اورکھاؤ دونوں اس میں سے بافراغت جہاں چاہو تم دونوں اور نہ قریب جاؤ تم دونوںاس درخت کے،پس ہو جاؤ گے تم دونوں ظالموں سے۔ پس پھسلایا ان دونوں کو شیطان نے اس سے پس نکال دیا ان دونوں کو اس چیز سے کہ تھے بیچ اس کے اور کہا ہم نے اترو سارے اب بعضے تمہارے واسطے بعض کے دشمن ہیں اور واسطے تمہارے اب بیچ زمین کے ٹھکانا ہے اور فائدہ ایک مدت تک۔} مرزائیو اﷲتعالیٰ نے آیت’’یادم اسکن‘‘ سے لے کر ’’فاخرجھما مما کان فیہ‘‘ تک ان چند آیتوں میں صیغہ مخاطب تثنیہ ہی استعمال فرمایا۔ مثلاً ’’وکلا منھا‘‘ صیغہ تثنیہ کھاؤ پیو دونوں بہشت سے پھر ’’حیث شئتما‘‘ صیغہ تثنیہ جہاں چاہو تم دونوں، آگے ’’ولا تقربا‘‘ صیغہ تثنیہ مت قریب جانا دونوں اس درخت کے ’’فتکونا من الظالمین‘‘ صیغہ تثنیہ پس ہو جاؤ گے تم دونوں ظالموں سے’’فازلّھا الشیطن‘‘صیغہ تثنیہ پس پھسلایا ان دونوں کو شیطان نے پھر ’’فاخرجھما‘‘ صیغہ تثنیہ پس نکلوادیا ان دونوں کو۔ یہاں تک عبارت عربی میں صیغہ تثنیہ ہی استعمال ہے اور جب ان کو نکل جانے کا یعنی زمین پراترنے کا حکم نازل ہوتا ہے تو ’’وقلنا اھبطوا‘‘ صیغہ جمع امر ہے، یہی سمجھنے کی بات ہے کہ یہاں پر کیوں نہیںکہاگیا۔ ’’وقلنا اھبطا‘‘جو صیغہ تثنیہ ہے کہ تم اترو دونوں۔ مگر بجائے اس کے صیغہ جمع استعمال کیا گیا۔ اب مرزائیوں سے ایک سوال، جس وقت اﷲ تعالیٰ کی ذات بابرکات نے ’’وقلنا اھبطوا‘‘ حکم نازل فرمایا۔ کیا اس وقت اولاد آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجود تھی؟