احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
نام لیوا کبھی اس خرافات کو برداشت کریں گے۔ خواہ انہیں خون کے سمندروں میں کیوں نہ تیرنا پڑے۔ مسلمان کے کامل ایمان کی نشانی ہی یہی ہے کہ وہ ایسی لغویات کو قوت بازو سے روک دے۔ ’’من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘ نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا پھر لکھتے ہیں:’’احرار تو ہمیشہ احمدیوں کے جلسوں میںاس قسم کی شور انگیزی کرتے آئے ہیں۔ کیا وہ گذشتہ ۶۰،۷۰ سال کے عرصے میں ایک مثال بھی اس کی پیش کر سکتے ہیں کہ احمدیوں نے بھی ان کے جلسہ کو کبھی خراب کیا ہے؟ شاید وہ یہ کہیں کہ احمدیوں کو اتنی طاقت ہی کہاں ہے کہ وہ شورڈال سکیں۔ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ احرار کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’’حلیم‘‘ کاغصہ بڑا سخت ہوتاہے۔‘‘ قربان جائیے ان کی حلیمی کے حلیمی پر۔ حلیمی ہے یا بزدلی۔ سخت غصے کی بنیاد سے ہم بھی بخوبی واقف ہیں۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔ دعا دیجئے انگریزوں اورفرانسیسیوں کو۔ دعادیں امریکہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو، جو تمہاری حلیمی اور سخت غصے کے رکھوالے ہیں…ایک مثل ہے: تنوں جھک کے مار دے چیتا،تیر، کمان جس نوں جھکدا دیکھے اس نوں بھلا نہ جان تمہاری حلیمی اور سخت غصہ یا بالفاظ دیگر بزدلی کے کارنامے قادیان میں دیکھے۔ جبکہ تم نے ۱۹۳۰ء میں مولوی عبدالکریم مباہلہ پر قاتلانہ حملہ کرایا اورنتیجہ میں حاجی محمدحسین شہید ہو گئے اور اس کے قاتل محمد علی پشاوری کو پھانسی کے بعد بہشتی مقبرہ میںدفن کیا اور مرزا محمود نے اس کے جنازے کو کندھا دیا۔کیا اس وقت ’’لااکراہ فی الدین (بقرہ:۲۵۷)‘‘ کی تفسیر بالاذہن میں نہ تھی کہ ایک حق پرست کے قاتل کی اتنی توقیر کی۔ آج چلاّ رہے ہو کہ اگر کوئی چیز کشتنی ہے۔ تو وہ یہی روح ہے جو آزادی خیال کو کچلنا چاہتی ہے۔ حالانکہ جب غازی علم الدین شہید نے رنگیلے رسول کے مصنف راجپال کو قتل کیا تو مرزا محمود نے کہا: ’’قتل راجپال محض مذہبی دیوانگی کانتیجہ ہے۔ جو لوگ قانون کو ہاتھ میںلیتے ہیں۔ وہ بھی اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی مجرم ہے۔ وہ بھی قانون کا دشمن ہے۔ جو لیڈر ان کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ و ہ خود مجرم ہیں، قاتل اورڈاکو ہیں۔ جو لوگ توہین انبیاء کی وجہ سے قتل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے برأت کا اظہا ر کرنا چاہئے اور ان کو دبانا چاہئے۔ یہ کہنا کہ محمد رسول اﷲ کی عزت کے لئے قتل کرنا جائز ہے۔ نادانی ہے۔ انبیاء کی عزت کی حفاظت قانون شکنی سے نہیں ہو سکتی۔‘‘ (خطبہ جمعہ مرزا محمود، مندرجہ الفضل ۱۹؍اپریل ۱۹۲۹ئ) لیکن اپنی ذات پرنکتہ چینی کرنے والے کے قتل کے لئے محمد علی پشاوری کو بلوانا اور پھر اس قاتل کے جنازے کو کندھا دینا اور اسے بہشتی مقبرے میں دفن کرنا یہ کیا ہے؟ بہ بین تفاوت زہ