احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
از کجا ست تابکجا۔ اس کے بعد محمد امین بخارا کا قتل او ر پھر فخر الدین ملتانی کا قتل اور پھر حاجی عبدالغنی رئیس اعظم بٹالہ کا قتل۔ پھر قادیان کے قبرستان میں وہاںکے مسلمانوں کو اپنے مردوں کو دفن نہ کرنے دینا بلکہ مسلمانوں کی قبریں اکھاڑ پھینکنا اور ان کا اپنے مردوں کے دفن کرنے کے لئے مجبوراً بٹالہ آنا…کیا یہ حلیموں کے کام ہیں یا بزدلوں کے؟ بزدل ہمیشہ غیروں کے کھونٹے پر ناچا کرتے ہیں۔ سوال کیا گیا ہے کہ آخر احرار چاہتے کیا ہیں؟ ابھی تک ان کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ احرار کیا چاہتے ہیں۔ سنئے !احراری نہیں، بلکہ تمام مسلمان خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ، حنبلی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنفی یا اہلحدیث، سب یہ چاہتے ہیں کہ مرزائیوں کو جمہور مسلمین سے الگ تھلگ ایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور یہی مطالبہ تمہارے مرزا محمود نے بھی کیا تھا۔ ملاحظہ ہو (الفضل ۱۳؍نومبر ۱۹۴۶ئ)مطالبہ حسب ذیل الفاظ میں ہے۔ ’’میں نے اپنے ایک نمائندہ کی معرفت ایک بڑے ذمہ دار انگریز افسر کو کہلوا بھیجا کہ پارسیوں اور عیسائیوں کی طرح ہمارے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں۔ جس پر افسر نے کہا کہ وہ تو اقلیت ہیں اور ہم ایک مذہبی فرقہ ہیں۔ جس طرح ان کے حقوق علیحدہ تسلیم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بھی کئے جائیں۔ تم ایک پارسی پیش کرو۔ اس کے مقابلہ میںمیں دو، دو احمدی پیش کرتا جاؤں گا۔‘‘ مرزائیوں کے پمفلٹ کا عنوان’’بترس ازآہ مظلوماں‘‘ ہے۔ کیا حلیمی شجاعت کا خاصہ ہے یا مظلومیت کا؟ شجاع بردبار بھی ہوتا ہے او ر غیور بھی لیکن بے غیرت نہیں ہوتا۔ آخر میں ہم حکومت پاکستان سے دردمندانہ اپیل کرتے ہیںکہ اگر وہ ملک میں واقعی طور پر امن چاہتی ہے تو اسلام دشمن عناصر کے منہ میں لگام دے۔ خواہ وہ مرزائی ہوں یا عیسائی یا کوئی اور۔ ان دشمنان اسلام کو دریدہ دہنی کی کھلی چھٹی دے دینا اور جمہور مسلمین کو پابند کرنے کی کوشش کرنا کسی صورت میں بھی جائز اور مفید نہ ہوگا۔ ہم پاکستان کے اندر اسلام اور بانی اسلام حضرت محمدﷺ کے خلاف کسی قسم کی بکواس سننے کے لئے تیار نہیں۔ خواہ اس کے لئے ہمیں کتنی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ عرض مطلب سے جھجک جانا نہیںزیبا ہمیں صاف ہے پنت اگر اپنی تو کیا پرواہ ہمیں بندئہ مومن کا دل ہم بیم ریا سے پاک ہے قوت فرمانروا کے سامنے بے باک ہے (اقبالؒ،بہ تغیر الفاظ)