احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
العوام بجہل المسائل الاجماعیۃ غیر المعلومۃ بالضرورۃ وہذا التفصیل ہوالذی مظہربہ کلام شیخ الاسلام فی المواضع المختلفۃ (ص۵۱۷ :رسال و مسائل نجدیہ) ‘‘ علماء امت کا اس امر پراتفاق ہے کہ جو امور دین کے قطعی ہیں۔ جن پر امت کا اجماع ہے اور دین کے ضروریات سے ہیں۔ جیسے توحید قیامت، ارکان اسلام اورزنا اور شراب کی حرمت، جو شخص ان کے سیکھنے میں کوتاہی کرے۔ باوجود اس کے کہ اسباب سیکھنے کے کافی ہوں۔ تو وہ جہالت کی بناء پر معذور نہیں سمجھا جائے گا(بلکہ ان میں شک کرنے سے کافر سمجھا جائے گا) نیز علماء اس بات پر بھی متفق ہیں کہ جو مسائل اجماعیہ ہیں۔ مگر وہ ضروریات دین سے نہیں۔ ان میں عوام کو جہالت کی بناء پر معذور سمجھا جائے گا۔ امام ابن تیمیہ کی کلام سے جو انہوں نے مختلف مقامات پر لکھی ہے۔ یہی ظاہر ہوتا ہے۔ پس اس بنا ء پر ہم ملا علی قاری کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کی دلالت پر جو اجماع ہے اس کا ان کو علم نہ ہو۔ اگرچہ نفس مسئلہ ختم نبوت جس پر اجماع وہ خود نقل کر رہے ہیں۔ اس کے وہ قائل ہوں۔ ملا علی قاری کی عبارت کی توجیہ جو ہم نے پہلے دوسرے نمبر پرنقل کی ہے (کہ وہ لغوی معنی کے اعتبار سے نبوت کے باقی رہنے کے قائل تھے نہ اصطلاحی معنی سے) اس لحاظ سے اجماع کی مخالفت کا ان پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ کیونکہ اجماع صرف نبوت کے شرعی معنی کے ختم ہونے پر ہے۔ نہ لغوی معنی کے ختم ہونے پر اور جب انہوں نے خاتم النبیین کی تفسیر پر تشریع کی قید لگا کر یہ ثابت کیا کہ وہ شرعی معنی کے اعتبار سے خاتم النبیین کو عام سمجھتے ہیں تو اب مخالفت اجماع کا اعتراض ان سے اٹھ گیا۔ اگرچہ صحیح بھی ہے کہ ہم کو مطلق نبوت کے ختم ہونے کا اعتقاد رکھنا چاہئے۔ اس میں تشریع اور غیر تشریع کی بحث میں پڑ کر عوام کا دماغ پریشان نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ جب ایک لفظ شرعی معنی کے اعتبار سے مشہور ہو چکا ہے۔ تو اب اس کی تقسیم میں لغوی معنی کا لحاظ کرنا جو متروک ہو چکا ہے، بالکل لغو طرز عمل ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص صلوٰۃ کو (جو ایک معروف عبادت یعنی نماز) میں مشہور ہے اور اس معنی کے اعتبار سے شرعی احکام اس کے متعلق ہیں۔ اس کو لغوی معنی کے اعتبار سے تقسیم کرے اور کہے کہ اس کے بعض افراد کے لئے وضو شرط ہے اور بعض کے لئے شرط نہیں۔ جیسے بدوں نماز دعا مانگنا۔ اگرچہ اس کا یہ کہنا فی نفسہ صحیح ہے۔