احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
مگر عرفی محاورات میں خبط دماغی سے زائد کوئی چیز نہیں۔ ہم نے ختم نبوت کی بحث میںیہ انداز صرف ایک کلام کی توحید کے لئے اختیار کیا ہے۔ ورنہ صحیح یہی ہے کہ ہم کو مطلق ختم نبوت کا لفظ استعمال کرنا چاہئے اور ظاہر ہے کہ اس سے نبوت کا معنی شرعی ہی سمجھا جائے گا۔ تشریع اور غیر تشریع کی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ (نبوت کے لئے شرعی تشریع کی ضرورت ہے) بھی ایک اجتہادی امر ہے۔ ممکن ہے کہ نبوت کے لئے شرعا بھی تشریع کی ضرورت نہ ہو اور مطلق پیش گوئی سے جو لغوی معنی ہے۔ ایک بلند درجہ مراد ہو۔ جس میں عصمت تو ضروری ہو۔ مگر تشریع نہ ہو اور باقی اولیاء کے جمیع مراتب سے ایک ایسا بلند درجہ ہو جہاں ان کی رسائی نہ ہو۔ میرے ناقص خیال میں نبوت کی اتنی اصبالی تشریح پر ہی اکتفاء کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس کی حقیقت سے بحث کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جن لوگوں نے اپنی عقل یاکشف سے اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں کہے جا سکتے۔ ۳… (الف) ختم نبوت کا مسئلہ قرآن مجید کی روشنی میں اﷲ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا۔ اس وقت فرمایا’’یابنی ادم امایاتینّٰکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولا ہم یحزنون (اعراف:۳۵)‘‘{اے بنی آدم اگر تمہارے پاس تم ہی سے رسول آئیں جو تم پر میری آیتیں بیان کریں۔ پس جو بچ گیا اور اپنی اصلاح کر لی نہ ان پر کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوںگے۔) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آدم علیہ السلام کے زمانہ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اﷲ کی طرف سے رسول آتے رہیں گے اور دوسری جگہ فرمایا کہ رسول بنانا اور انسانوں اور فرشتوں سے ان کا انتخاب کرنا صرف اﷲ کا کام ہے۔ ’’اﷲ یصطفی من الملائکۃ رسلا ومن الناس (حج:۷۵)‘‘{ملائکہ اور انسانوں سے رسولوں کا انتخاب کرنا اﷲ کا کام ہے۔} ’’ولکن اﷲ یجتبی من رسلہ من یشاء (آل عمران: ۱۷۹)‘‘ {اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے رسول منتخب کرے یا رسولوں سے جس کو چاہے منتخب کرے۔} یعنی انتخاب اﷲ کا فضل ہے۔ اسی وعدہ کو مختلف صورتوں میں بیان کیا ہے۔ بعض جگہ ہدایت بھیجنے کا وعدہ ہے اور بعض جگہ غیب پر مطلع کرنے کا ذکر کیا ہے۔ ہدایت اورغیب سے مراد بھی شریعت ہی ہے۔ جو رسولوں کی معرفت آتی ہے۔