احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
اب قارئین کرام سمجھ گئے ہوں گے کہ ختم نبوت کے مسئلہ کی اسلام میں کیا اہمیت ہے اور یہ کہ اس کی حفاظت کے اقدامات نبی کریمﷺ کی زندگی میں ہی شروع ہو گئے تھے اور ہزاروں صحابہ نے اس کی خاطر اپنی جانیں دیں اور ہزاروں مرتدوں کو جہنم واصل کیا۔ تب سے اب تک اس مسئلہ کی حفاظت کے لئے علماء اسلام نے جو کچھ کیا وہ کتاب و سنت کی روشنی میں اور پیغمبرعلیہ السلام اور صحابہ کی تقلید میں کیا۔ ہندوستان میںمرزا غلام احمدقادیانی کے دعویٰ نبوت کے بعد علماء تحریر و تقریر سے اس کا رد کرتے رہے۔ لیکن حکومت برطانیہ کی پشت پناہی سے اس کا یہ خود کاشتہ پودا پھلتا پھولتا رہا۔ پھر حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے شدت کے ساتھ اس کی مدافعت کا انتظام کیا۔ ان کی بصیرت نے دنیا کی دو عظیم شخصیات کو چنا۔ ایک امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری مدظلہ العالیٰ جو دنیا کے بے مثال خطیب ہیں اور دوسرے علامہ اقبال مرحوم، جن کو دنیا نے حکیم مشرق تسلیم کیا ہے اور جو بقول پاکستانی مسلمانوں کے تخیل پاکستان پیش کرنے والے تھے۔ ایک نے خطابت کے ذریعے اور دوسرے نے شاعری کے ذریعے اس نبوت کاذبہ کی تردید شروع کی اور سب سے پہلے انگریز سے قادیانی جماعت کو مسلمانوں سے الگ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ علامہ اقبال نے کیا اور جن کی تفصیلات اس وقت اخبار سٹیٹس میں شائع ہوتی رہی اور آج بھی ان کا اردو ترجمہ حرف اقبال نامی کتاب میں بعنوان’’ اسلام اورقادیانیت‘‘ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہاں اس تحریر کے چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ علامہ اقبال مرحوم نے قادیانی تحریک کے ختم نبوت کے مسئلہ سے انکار کو کس صورت میںدیکھا اور اس کے کون سے نتائج بھانپے جن کی بناء پرا نہوں نے اس گروہ کومسلمانوں سے الگ اقلیت قرار دینے کا نعرہ بلند کیا۔ کیا اس نعرہ کے بلند کرنے میں بقول پیر دیول علامہ اقبال کی جو نفسانی غرض تھی؟ کیا وہ بھی منافق تھے؟ اگر نہیں تو پھرانہوں نے اسلام کی جامعیت کو نقصان پہنچانے اور لچک کو ختم کرنے کی کیوں ٹھانی؟ اس کے لئے ذیل میں علامہ اقبال مرحوم کے بیانات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔ اسلام اور دیگر مذاہب کے فرق کے متعلق اقبال لکھتے ہیں: ’’ہندوستان کی سرزمین پر بے شمار مذاہب بستے ہیں۔ اسلام دینی حیثیت سے ان تمام مذاہب کی نسبت زیادہ گہرا ہے۔ کیونکہ ان مذاہب کی بنیاد کچھ حد تک مذہبی ہے اور ایک حد تک نسلی، اسلام نسلی تخیل کی سراسر نفی کرتا ہے اور اپنی بنیاد محض مذہبی تخیل پر رکھتا ہے اور چونکہ اس کی بنیاد صرف دینی ہے ۔ اس لئے وہ سراپا روحانیت ہے اور خونی رشتوں سے کہیں زیادہ لطیف بھی ہے۔