احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
آیت بالا میںیہاں دونوں لفظوںکو جمع کر کے یہ بتلادیا گیا ہے کہ دین اسلام اب ہر پہلو سے مکمل ہو چکا ہے۔ نہ اس میں اجزاء کا نقصان باقی ہے نہ اوصاف کا۔ اس لئے اب اس کی حرکت ارتقائی ختم ہو گئی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ آپ کا آخری نبی ہونا صرف ایک تاخر زمانی نہیں ہے۔ کسی شخص کا صرف آخر میں آنافضیلت کی کوئی دلیل نہیں ہوتی بلکہ سنت اﷲ چونکہ یہ ہے کہ ہر شے کا خاتمہ کمال پر کیا جائے۔ اس لئے یہاں آپﷺ کا تاخرزمانی آپﷺ کے انتہائی باکمال ہونے کی دلیل ہے۔ اسی حقیقت کو آنحضرتﷺ نے قصر نبوت سے ایک بلیغ تشبیہ دے کرفرمادیاتھا۔ یہود کو جب خدا کے اس اکمال و اتمام کی خبر پہنچی تو ان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے از راہ حسد کہا کہ اے عمرؓ! اگر کہیں یہ آیت ہمارے حق میں اترتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ حافظ ابن کثیرؒ (ج۳ ص۲۲) میں فرماتے ہیں: ’’ہذہ اکبر نعم اﷲ علی ہذہ الامۃ حیث اکمل تعالی لھم دینہم فلا یحتا جون الی دین غیرہ ولا الی نبی غیر نبیھم صلوٰۃ اﷲ وسلام علیہ ولہذا جعلہ خاتم الانبیاء وبعثہ الی الجن والانس‘‘{اﷲ تعالیٰ کا اس امت پریہ بہت بڑا انعام ہے کہ اس نے اس امت کا دین کامل کر دیا کہ اب اسے نہ کسی دین کی ضرورت رہی، نہ کسی اور نبی کی۔ اسی لئے آپ کو خاتم النّبیین بنایا ہے اور انسان وجن سب کے لئے رسول بناکربھیجا ہے۔} معلوم ہوا کہ ختم نبوت دینی ارتقاء اور خداتعالیٰ کے انتہائی انعام کا اقتضاء ہے اور وہ کمال ہے کہ اس سے بڑھ کر امت کے لئے کوئی اور کمال ہو نہیں سکتا۔ حتیٰ کہ یہود کو بھی ہمارے اس کمال پر حسد ہے۔ پھر حیرت ہے کہ اتنے عظیم الشان کمال کو برعکس محرومی سے کیسے تعبیرکیا جا سکتا ہے؟ پس خدا برما شریعت ختم کرد بررسول مارسالت ختم کرد رونق ازما محفل ایام را اورسل راختم مااقوام را لانبی بعدی زاحسان خداست پردئہ ناموس دین مصطفی است قوم راسرمایہ قوت ازو حفظ سروحدت ملت ازو (اقبال)