احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اسی لئے مسلمان ان تحریکوں کے معاملہ میں زیادہ حساس ہے۔ جو اس کی وحدت کے لئے خطرناک ہیں۔ چنانچہ ہر ایسی مذہبی جماعت جو تاریخی طور پرتو اسلام سے وابستہ ہو۔ لیکن اپنی بنا نئی نبوت پر رکھے اور بزعم خود اپنے الہامات پر اعتقاد نہ رکھنے والے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھے۔ مسلمان اسے اسلام کی وحدت کے لئے خطرہ تصور کرے گا اور یہ اس لئے کہ اسلامی وحدت ختم نبوت سے ہی استوار ہوتی ہے۔ ‘‘ (حرف اقبال ص۱۲۱،۱۲۲) ختم نبوت کا انکار اسلام کی وحدت کوتوڑنے کے مترادف ہے۔ اسی حقیقت کو علامہ اقبالؒ نے ’’رموز بے خودی‘ ‘ میں بعنوان’’ رسالت‘‘ یوں بیان فرمایا ہے۔ ایں گہراز بے پایان اوست ماکہ یکجا از احسان اوست تانہ ایں وحدت زدست مارود ہستی مابا ابد ہمدم شود پس خدابر ما شریعت ختم کرد بررسول مارسالت ختم کرد لانبی بعدی زاحسان خداست پردئہ ناموس دین مصطفی است قوم راسرمایہ قوت ازو حفظ سروحدت ملت ازو ترجمہ… ہم مسلمان جو یک جان ہیں۔ انہیؐ کا احسان ہے اور یہ (وحدت کا) موتی انہیؐ کے اتھاہ سمندر سے ملا ہے۔ اس لئے کہ یہ وحدت ہم سے چھن نہ جائے اور ہماری ہستی ابد تک قائم رہے۔ خدا تعالیٰ نے ہم پر شریعت ختم کر دی او ر ہمارے رسولﷺ پر رسالت ختم کر دی۔ اب زمانے کی محفل کی رونق ہمارے ہی دم سے ہے۔ انؐ پر رسالت ختم ہے اور ہم پر قومیت۔ ’’لانبی بعدی‘‘ اﷲ کا احسان ہے اور یہ عقیدہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے دین کے ناموس کا پردہ ہے۔ قوم کی قوت کا سرمایہ اسی (ختم نبوت کے عقیدے) سے ہے۔ ملت کی وحدت کے راز کی حفاظت کے لئے جب مسلمان اٹھتا ہے تو نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمان اسے رواداری سے عاری اور جاہل تصورکرتے ہیں۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال لکھتے ہیں:’’نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ختم نبوت کے تمدنی پہلو پر کبھی غور نہیں کیا او ر مغربیت کی ہوا نے اسے حفظ نفس کے جذبہ سے بھی عاری کر دیا ہے۔ بعض ایسے ہی نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کو رواداری کا مشورہ دیا ہے۔ اس قسم کے معاملات میں جو لوگ ’’رواداری‘‘ کا نام لیتے ہیں۔ وہ لفظ رواداری کے استعمال میں بے حد غیر محتاط ہیں اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اس لفظ کو بالکل نہیں سمجھتے۔ رواداری کی روح ذہن انسانی کے مختلف نقاط نظر سے پیدا ہوتی ہے۔ گبن کہتا ہے: