احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
طرف متحرک ہیں۔ ہر پچھلی شریعت پہلے سے نسبتاً ارتقائی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس لئے اس طبعی اصول کے مطابق ضروری ہے کہ یہ حرکت بھی کسی نقطہ پر جاکر ختم ہو۔ جس کو اس کا کمال کہا جائے۔ لیکن جب نبوت ہمارے ادراک سے بالاتر حقیقت ہے تو اس کے آخری نقطہ کمال کا ادراک بدرجہ اولیٰ ہماری پرواز سے باہر ہونا چاہئے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ قدرت خود ہی اس کا تکفل فرمائے اور خود ہی اس کا اعلان کر دے کہ نبوت کا ارتقاء جہاں ختم ہوا ہے، وہ مرکزی اور کامل ہستی آنحضرتﷺ کی مبارک ہستی ہے۔ اس لئے …قرآن مجید میں:’’ولکن رسول اﷲو خاتم النّبیین‘‘ کے بعد فرمایا ہے :’’وکان اﷲ بکل شی علیما (احزاب:۴۰)‘‘یعنی اﷲ تعالیٰ ہی کو ہر چیز کا علم ہے۔ وہی یہ جانتا ہے کہ نبیوں میں خاتم النّبیین اور آخری کون ہے۔ یہ بات تمہاری دریافت سے باہر ہے کہ تم معلوم کر سکو کہ اس کے رسولوں کی مجموعی تعداد کتنی ہے۔ ان میں اول کون ہے اور آخر کون؟ اگر اسے عالم کا بقاء اور منظور ہوتا تو شاید وہ آپ کی آمد ابھی کچھ دن کے لئے اور مؤخر کر دیتا۔ لیکن چونکہ دنیا کی اجل مقدر پوری ہو چکی تھی۔ اس لئے ضروری تھاکہ نبوت کی آخری اینٹ بھی لگادی جائے اوراعلان کر دیا جائے کہ دنیا کی عمر کے ساتھ قصر نبوت کی بھی تکمیل ہو گئی ہے۔ نبوت نے اپنا مقصد پالیا ہے۔ آپﷺ کے بعد اب کوئی رسول نہیں آئے گا۔ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نبوت اب اپنے ارتقائی کمال کو پہنچ چکی ہے۔ اب او ر کوئی کمال منتظر اس کے لئے باقی نہیں رہا۔ اس لئے اس فطری اصول کے مطابق اسے ختم ہو جانا چاہئے:’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (مائدہ:۳)‘‘{یعنی تمہارا دین کمال کو پہنچ چکا ہے۔ اب ناقص نہ ہوگا۔ خدا کی نعمت پوری ہو چکی ہے۔ }اب آئندہ اس سے زیادہ اس کے تمام کی توقع غلط ہے اور نظر ربوبیت اب ہمیشہ کے لئے دین اسلام کو پسند کر چکی ہے۔ اس لئے کوئی دین اس کا ناسخ بھی نہیں آئے گا۔ عربی زبان میں کمال و تمام دونوں لفظ نقصان کے مقابل ہیں۔ ان میں فرق یہ ہے کہ کمال اوصاف خارجیہ کے نقصان کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور تمام اجزاء کے لحاظ سے مثلاً اگر انسان کا ایک ہاتھ نہ ہو تو وہ ناقص ہے۔ یعنی اسے ناتمام انسان کہا جائے گا۔ خواہ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو اور اگر اسکے اعضاء پورے ہیں۔ مگر صورت اچھی نہیں، اخلاق نادرست ہیں۔ خصائل درشت و ناہموار ہیں تو اس کو بجائے ناتمام کے نامکمل انسان کہا جائے گا۔