احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اسپیچ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میری تم سے اب یہ آخری ملاقات ہے۔ جو کہتا ہوں خوب غور سے سن لو۔ اسی طرح خالق زمین و زماں کو جوآخری ہدایات دینا تھیں۔وہ آنحضرت ﷺ کی معرفت دے دیں اور اعلان کر دیا کہ اب یہ رسول آخری رسول ہے۔ ایمانیات، اخلاقیات، معیشت، تمدن کے سب اصول مکمل کر دیئے گئے۔ اس لئے یہ دین آخری دین ہے۔ جسے جو عمل کرنا ہے کرلے۔حیل و حجت کا وقت نہیں کررہا۔ بحث و جدل کی بجائے عمل کی فرصت نکالنی چاہئے۔ وقت تھوڑا رہ گیا ہے اور حساب کی ذمہ داری سر پر ہے۔ ’’اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون (الانبیائ:۱)‘‘ {لوگوں کے حساب کتاب کی گھڑی قریب آپہنچی اور وہ غفلت میں منہ موڑے چلے جا رہے ہیں۔} یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصئہ محشر میں ہے پیش کرغافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے اب نہ کوئی رسول آئے گا، نہ نبی، نہ تشریعی نہ غیر تشریعی، نہ ظلی نہ بروزی مگر اس معنی سے نہیں کہ آئندہ نفوس انسانیہ کو کمال و تکمیل سے محروم کر دیا ہے۔ بلکہ اس معنی سے کہ اب یہ منصب ہی ختم ہو گیا ہے۔ پہلے عالم کی عمر میں بہت وسعت تھی اور اس منصب پر تقرر کی گنجائش بھی کافی تھی۔ اس لئے انبیاء علیہم السلام برابر آتے رہے۔ اب دنیا کی عمر ہی اتنی باقی نہیں رہی کہ اس میں اور تقرر کی گنجائش ہوتی۔ اس لئے اس کے خاتمہ پرآپﷺ کو بھیج کر یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ اب نبی نہیں آئیں گے۔ قیامت آئے گی۔ چونکہ سنت الٰہیہ یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو ختم فرمانے کا ارادہ کرتا ہے تو کامل ہی ختم کر دیتا ہے۔ ناقص ختم نہیں کرتا۔ نبوت بھی اب اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی۔ اس لئے مقدر یوں ہواکہ اس کو بھی ختم کر دیا جائے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب تم فطرت عالم پر غور کرو گے تو تم کو جزو کل میں ایک حرکت نظر آئے گی۔ ہر حرکت ایک ارتقاء اور کمال کی متلاشی ہوتی ہے۔ پھر ایک حد پر پہنچ کر یہ حرکت ختم ہو جاتی ہے اور جہاں ختم ہوتی ہے۔ وہی اس کا نقطہ کمال کہا جاتا ہے۔ انواع پر نظر ڈالئے تو جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات پھر حیوانات سے انسان کی طرف ایک ارتقائی حرکت نظر آرہی ہے۔ مگر انسان پر پہنچ کر یہ ارتقائی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہاجاتا ہے کہ انسان تمام انواع میں کامل ترنوع ہے۔ یہی تدریج عالم نبوت میں بھی نمایاں ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر تمام شریعتوں پر نظر ڈالئے تو آپ کومعلوم ہو گا کہ تمام نبوتیں کسی ایک کمال کی