احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
بڑا ولی، غوث یا قطب بھی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی گرد پاکو نہیں پہنچ سکتا۔ چہ جائیکہ وہ امام العٰلمین ہونے کا دعویٰ کرے۔حالانکہ ایسا دعویٰ کسی بڑے سے بڑے صحابی حتیٰ کہ خلفائے راشدین میں سے کسی نے نہیں کیا۔ پیر دیول کے ملفوظات کا کاتب (مرتب) مونس زبیری بھی پیر دیول کی معیت میں ’’ولی الرسول‘‘ بن جانے کامدعی ہے۔ کیونکہ اس کے سر پر بزعم خود متعدد اولیائے کرام کی دستخطی ٹوپی ہے۔ یہ ٹوپی بھی کسی سلیمانی ٹوپی کی قسم سے ہوگی۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ وہ کس رسول کا ولی ہے۔ کہیں درپردہ پیر دیول بھی رسالت کا دعویٰ کرنے کی تیاری تو نہیں کر رہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر امام العٰلمین ہونے کا دعویٰ اس کی ابتدائی کڑیوں میں سے ہے۔ جن لوگوں نے ’’دلق ملمع‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ میں نے اس کے (صفحہ ۱۶) پریہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں کہ آئندہ صفحات میں آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ پیر عبدالمجید بھی اگرچہ سردست نبی تو نہیں تھے۔ لیکن شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ اور حضرت سید مخدوم علی ہجویری رحمۃ اﷲ علیہ کا ہم پایہ تو خود کو سمجھنے لگ گئے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا قریب قریب ان چودہ صدیوں میں روحانیت کا روپ دھار کر یہودیت اور مجوسیت کی معجون مرکب ایرانی عجمی باطنی تحریک نے جس کا بنیادی مقصد اسلام کی تخریب کے سوا کچھ بھی نہیں، ایسے ہزاروں افراد پیدا کئے جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حب اہلبیت اور حب رسول کے دعویٰ کی آڑ میں وہ وہ ستم اسلام پر ڈھائے کہ اگر: کسی بت کدے میں بیان کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری پیر دیول کو بھی اپنی روحانیت پر بڑا ناز او ر اپنے مبایعین کو محض مرید ہونے کی بناء پر بخشوالینے کا دعویٰ ہے۔ لیکن ہمیں اس سے بحث نہیں کیونکہ یہ پیر دیول بھی اپنے پیشرو عجم پرست باطنیوں کے نقش قدم پر چل کر اپنی بزرگی اورکرامات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ ہم تو پیر دیول کے صرف اس بیان پر تنقید کریں گے جو براہ راست ملت اسلامیہ کی جڑ پر کلہاڑے کی ضرب کا کام کر رہا ہے اور جسے کتاب و سنت کی تعلیمات پر یقین رکھنے والے مسلمان کسی حال میں بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ راولپنڈی کے روزنامہ تعمیر کی اشاعت سہ شنبہ مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۶۰ء میں پیر دیول کا