احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سچا اور خدا کی طرف سے پیغام لائے جیسے قرآن مجید میں ہے: ’’فبعث اﷲ النّبیین مبشرین و منذرین وانزل معہم الکتاب (البقرۃ: ۲۱۳)‘‘ {اﷲ تعالیٰ نے خوشخبری دینے اورڈر سنانے کے لئے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی۔} دوسری جگہ فرمایا:’’وماارسلنامن قبلک من رسول ولا نبی الا اذاتمنّٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اﷲ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اﷲ ایاتہ واﷲ علیم حکیم (الحج:۵۲)‘‘ {ہم نے جب کبھی رسول اور نبی بھیجا تو اس کی امنیت (قرائت) میں شیطان دخل اندازی کرتا ۔ پھر اﷲ تعالیٰ (شیطانی آمیزش کو مٹا دیتا ہے) اپنی آیات کو محکم فرماتا ہے۔ اﷲ علیم اور حکیم ہے۔} ان دونوں آیتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں نبی کے لئے شریعت کتاب و آیات کا ہونا لازمی ہے۔ پس لغوی معنی کے لحاظ سے اگرچہ نبی کا اطلاق کسی ولی صاحب کشف پر ہو سکتا ہے۔ مگر شریعت نے جب اس اطلاق کی ممانعت کر دی ہے۔ پس ہم کو بھی بہ لفظ (نبی) کا آنحضرتﷺ کے بعد کسی شخص پر نہیں بولناچاہئے۔ پس ابن عربی کی کلام کا یہ مطلب نکلا کہ نبوت کا اطلاق صرف تشریع پرہوتا ہے۔ غیر تشریع پر اطلاق شرعی نہیں بلکہ لغوی ہے۔ ان کا یہ مطلب ہے کہ شرعی غیر تشریعی نبوت شرعی معنے کے لحاظ سے باقی ہے۔ کیونکہ شرعاً اس پر نبوت کا اطلاق درست نہیں۔ بلکہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کسی معنی سے یہ لفظ استعمال نہ کریں۔ سوال نمبر:۳… ملا علی قاری نے موضوعات میں لکھا ہے۔ اگر عمر اور ابراہیم ابن محمدﷺ نبی ہوتے تو یہ امر خاتم النّبیین کے منافی نہ ہوتا۔ گویا ملا علی قاری ختم نبوت کے قائل نہیں۔ پس اجماع نہ ہوا۔ جواب… ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ختم نبوت پر امت کا اجماع ہے اور یہ اجماع ملا علی قاری نے بھی نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو (شرع فقہ اکبر) ’’ودعویٰ النبوۃ بعد نبینا کفر بالاجماع‘‘ یعنی ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالا جماع کفر ہے۔