احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
زمانے کی نسبت فرماتے ہیں۔ (وہ بھی اس شخص کے لئے جو کوشش نہ کرے ورنہ مطلق اجماع سے ان کو انکار نہیں) کیونکہ امام احمد نے بہت جگہ اجماع کے ساتھ استدلال کیا ہے۔ امام ابو اسحاق اسفرائینی کہتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ مسائل اجماع کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ ہے۔ (فواتح ص۴۹۴) سوال نمبر:۲… ابن عربی فتوحا ت مکیہ میں فرماتے ہیں، نبوت باقی ہے۔ صرف تشریعی بند ہے۔ پس اجماع نہ ہوا۔ جواب… (۱) ابن عربی نہ صحابی ہے نا تابعی نہ تبع تابعی۔ ایک متاخر آدمی ہے۔ اگر اس نے کہا بھی ہو تو یہ ان کی جہالت ہو گی کہ ان کو اس مسئلہ پراجماع کا علم نہیں۔ ابن عربی نے فصوص الحکم میں بہت سے مسائل میں صریح نصوص کی مخالفت کی ہے۔ جیسے مجدد الف ثانی کے مکتوب میں اس کی تصریح موجو د ہے۔ ۲… فتوحات میں ابن عربی نے یہ لکھا کہ شریعت میں نبوت کی حقیقت میں تشریع داخل ہے۔ یعنی ہر نبی مشرع ہے۔ چنانچہ لکھتا ہے ’’ومع ہذا فلا یطلق اسم النبوۃ والنبی الا علی المشرع خاصۃ فحجر ہذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وما حضر التی لیس فیہا ہذا الوصف الخاص و ان کان حجر الاسم فنتادب ونقف حیث وقف ﷺ‘‘ ’’باوجود اس کے نبوت اور نبی کا لفظ اسی پر بولا جائے گا۔ جو شریعت والا ہو۔ اس لفظ نبوت کی ممانعت اسی بناء پر ہے کہ اس میں تشریع کی قید ملحوظ ہے۔ ورنہ اس وصف کے بغیر نبوت کے الحاق کی ممانعت نہیں۔ آنحضرتﷺ نے چونکہ اس لفظ کو اپنے بعد غیر مشرع کے لئے بھی روک دیا ہے۔ اس لئے اب ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں آنحضرتﷺ ٹھہرے ہیں۔ وہاں ہم ٹھہر جائیں۔‘‘ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ لغت کے لحاظ سے نبوت کے معنی پیش گوئی کے ہیں اور شریعت نے اس میں تشریع کی قید بڑھائی ہے۔ پس شریعت کے الفاظ کو ان کے شرعی معانی میں بھی استعمال کرنا چاہئے۔ اس لئے لغوی معنی کے لحاظ سے اب بھی بعض اولیاء پر نبی کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔ کیونکہ شریعت نے جو نبی کی اطلاق کی بندش کی ہے۔ اس سے مراد تشریعی نبوت ہے۔ غیر تشریعی نبوت مراد نہیں۔ کیونکہ لغت میں یہ قید ملحوظ نہیں بلکہ لغت میں ہر پیش گوئی کرنے والے کو نبی کہتے ہیں۔ خواہ سچا ہو یا جھوٹا۔ خدا کا نبی ہو یا شیطان کا ۔ مگر شریعت میں صرف اسی کو کہتے ہیں۔ جو