احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یعنی عیسیٰ علیہ السلام آخر زمانے میں نازل ہوںگے اور شریعت محمدیہﷺ کے مطابق فیصلے کریںگے۔ پھر کتاب مذکور (ج۳ص۲۴۱،۳۶۷)میںمرقوم ہے:’’انہ لم یمت الی الان بل رفعہ اﷲ الی ہذہ السماء واسکنہ فیھا‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام ابھی فوت نہیں ہوئے۔ بلکہ آسمان پر سکونت پذیر ہیں۔ امام ابن جریر رحمۃ اﷲ پر اتہام علامہ ابن جریرؒ نے جابجا اپنی تفسیر میں حیات مسیح علیہ السلام کا ثبوت دیا ہے۔ مگر چونکہ تفاسیر میں مختلف لوگوں کے اقوال نقل ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کسی کا قول نقل کیا کہ: ’’قدمات عیسیٰ‘‘ مرزائیوں نے جھٹ اسے ابن جریرؒ کا قول قرار دے کر عوام الناس کو مغالطہ دینا شروع کر دیا کہ امام ابن جریرؒ بھی وفات مسیح کے قائل ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ امام ابن جریرؒ تو متعدد اقوال لکھ کر بعد میں اپنا فیصلہ بایں الفاظ لکھتے ہیں کہ: ’’واولیٰ ہذہ الاقوال بالصحۃ عند ناقول من قال معنیٰ ذالک انی قابضک من الارض ورافعک الیّ لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ‘‘ یعنی ’’توفی‘‘ کے متعلق جو بحث ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ توفی بمعنی نیند ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بمعنی موت ہے جو آخری زمانے میں ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ ان جملہ اقوال سے ہمارے نزدیک صحیح یہ قول ہے کہ میں زمین سے تجھ کو پورا پورا لینے والا ہوں۔ یہ معنی اس لئے اقرب الیٰ الصواب ہے کہ نبی علیہ السلام سے متواتر حدیثوں میں آیا ہے کہ:’’انہ ینزل عیسیٰ بن مریم فیقتل الدجال ثم یمکث فی الارض ثم یموت (ج۲ص۱۸۴)‘‘ مرزائی دوستو!تمہارے مصنوعی نبی مرزا قادیانی نے امام ابن جریرؒ کو معتبر آئمہ حدیث لکھا ہے۔ ملاحظہ ہو (چشمہ معرفت حاشیہ ص۲۵۰، خزائن ج۲۳ص۲۶۱)آؤامام موصوف کا فیصلہ مان لو کہ آیت :’’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ کا صحیح معنی یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کریں گے۔ پھر فوت ہوںگے۔ ابھی فوت نہیں ہوئے۔ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ لیکن تمہیں تو صرف دھوکہ دہی مقصود ہے۔ ایمان و انصاف سے کیا مطلب؟ مصنف الیواقیت والجواہر پر اتہام کہاگیا ہے کہ یہ بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ کیونکہ انہوں نے حدیث موسیٰ و عیسیٰ ’’حییّن‘‘ نقل کی ہے۔ جواب اتہام پھر تو مرزا قادیانی بھی یقینا جھوٹے ہیں۔ کیونکہ وہ موسیٰ علیہ السلام کو زندہ