احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
السالکین ج۴ ص۲۱۳، مطبوعہ مصر ص۲۴۲)‘‘ یعنی نبوت محمدیؐ تمام جن و انس کے لئے اور ہر زمانے کے لئے ہے۔ بالفرض اگر موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام آج زندہ موجود ہوتے تو وہ بھی آپ ہی کی اتباع کرتے اور جب عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوںگے تو وہ شریعت محمدیہؐ پر ہی عمل کریںگے۔ مرزائی دوستو! پس جھوٹی بات کو سچا کرنے کے لئے کسی پر اتہام لگانا انتہا درجہ قبیح اور بعید از شرافت ہے۔ اگر اس قول سے وفات ہی ثابت کرنا چاہتے ہو تو ساتھ ہی مرزا قادیانی کی نبوت کاذبہ سے بھی ہاتھ دھو لو۔ کیونکہ وہ حیا ت موسوی کے قائل ہیں۔ حالانکہ اس قول میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات مذکور ہے:’’فما جوابکم فھو جوابنا‘‘ الغرض امام ابن قیم رحمۃ اﷲ علیہ کی تصنیفات میں مسئلہ حیات مسیح بعبارۃ النص موجود ہے۔ چنانچہ( کتاب التبیان مصنفہ ابن قیم ص۱۳۹) میںمرقوم ہے:’’وہذا المسیح بن مریم حیّ لم یمت وغذائہ من جنس غذاء الملئکۃ‘‘ یعنی مسیح بن مریم زندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے۔ ان کی خوراک وہی ہے جو فرشتوں کی ہے۔ نیز کتاب مذکور کے (ص۲۲)پرمسطور ہے :’’وانہ رفع المسیح الیہ‘‘ یعنی تحقیق اﷲ عزوجل نے مسیح علیہ السلام کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ نیز:’’وھونازل من السماء فیحکم بکتاب اﷲ‘‘ اور وہ آسمان سے نازل ہو کر قرآن و حدیث پرعمل کریں گے۔ (ہدیۃ الحیاریٰ مع ذیل الفارق ص۴۳ مطبوعہ مصر) حافظ محمد لکھویؒ پراتہام حافظ صاحب موصوف پر بھی مرزائیوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ بھی وفات مسیح کے قائل تھے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ و بہتان ہے۔ وہ اپنی تفسیر (تفسیر محمدی ج ۱ ص۲۹۱) پربزبان پنجابی تحت آیت :’’ومکرواومکر اﷲ‘‘ لکھتے ہیں یعنی خدا نے اس وقت جبرائیل علیہ السلام بھیجا جو عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا کر آسمان پر لے گیا۔ جب طیطانوس انہیں قتل کرنے کے ارادہ سے اندر گیا تو خدا نے اسے عیسیٰ کی شکل بنادیا۔ جسے سولی دی گئی۔ اسی طرح اگلے صفحہ پر آیت:’’انی متوفیک و رافعک الیّ‘‘ کی تفسیر میں بھی وضاحت کی ہے۔ علامہ ابن عربیؒ پر اتہام کہا گیاہے کہ یہ بزرگ بھی وفات مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ حالانکہ یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے۔ کیونکہ وہ اپنی کتاب (فتوحات مکیہ ج۲ص۱۲۵) میںلکھتے ہیں:’’ان عیسیٰ علیہ السلام… ینزل فی ہذہ الامۃ فی اخرالزمان ویحکم بشریعۃ محمدﷺ‘‘