احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
تاخیر التقدیرہ انی رافعک و مطھرک ومتوفیک بعد انزالک من السماء قال ابوزید متوفیک قابضک‘‘ یعنی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے۔مقصد یہ ہے کہ اے عیسیٰ! میں تجھے آسمان سے اتارنے کے بعد فوت کروں گا۔ اسی طرح امام شوکانیؒ نے اپنی تفسیر فتح القدیرمیں لکھا ہے:’’عن مطرالوراق قال متوفیک من الدنیا ولیس بوفات موت…لان الصحیح ان اﷲ رفعہ الی السماء من غیروفاۃ کما رجحہ کثیر من المفسرین واختارۃ ابن جریر الطبری و وجہ ذالک انہ قدصح فی الاخبار عن النبیﷺ نزولہ وقتلہ الدجال الی قولہ وقیل الواوفی قولہ ورافعک لا تفید التریب لانھا لمطلق الجمع فلافرق بین التقدیم والتاخیر قالہ ابو البقائ‘‘ یعنی اگرعبارت میں تقدیم و تاخیر تسلیم نہ ہوتو پھر وفات کے معنی موت کے نہیں۔ کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اﷲ عزوجل نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اٹھا لیا بغیر موت کے۔ اکثر مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ امام ابن جریرؒ نے بھی اس معنی کو پسند کیا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے اترنا اور اتر کر دجال کو قتل کرنا ثابت ہے۔ علامہ ابوالبقاء نے کہا کہ ’’انی متوفیک ورافعک الیّ‘‘ میں واؤ مطلق جمع کے ہے۔ ترتیب کے لئے نہیں ہے۔ مرزائی دوستو! حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی کی صراحت قرآن مجید میں موجود اور جملہ مفسرین معتبرین کے نزدیک مسلم ہے۔علامہ ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’واولیٰ ہذہ الاقوال بالصحۃ عند ناقول من قال معنی ذالک انی قابضک من الارض ورافعک الی لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ ‘‘ عبار ت ہذا میں :’’لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ‘‘ کے الفاظ خاص طور پرقابل غور ہیں اور اسی عقیدہ پر محققین و محدثین کا اجماع ہو چکا ہے۔ پس جو لوگ ممات مسیح کے قائل ہیں۔ وہ نہ صرف قرآن مجید کے بلکہ احادیث متواترہ کے بھی منکر ہیں۔ پس جب حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش عام انسانی قاعدہ توالد و تناسل سے الگ یعنی بغیر باپ کے توسط کے محض نفخہ جبرائیل سے مسلم ہے۔ تو ان کی زندگی و انجام بھی معمول عام کے خلاف ماننے میں کیا استبعاد ہے۔ حرف واؤ میں ترتیب ضروری نہیں علم نحو و ادب، معانی و بلاغت کی کتابوں میں بالاتفاق موجود و مسطور ہے کہ حرف واؤ میں ہر جگہ ترتیب ضروری نہیں ہوتی۔ چنانچہ ’’کافیہ‘‘ (جو کہ علم نحو کی مشہور کتاب ہے) میں