احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کے معنی ’’ممیتک‘‘ کئے ہیں۔ وہ اس وقت ہیں جب کہ آیت میں تقدیم و تاخیر مانی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خدا نے فرمادیا اے عیسیٰ! میں تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تجھ کو آسمان سے زمین پر اتارنے کے بعد فوت کرنے والا ہوں۔ ’’کذاقالہ الضحاک وجماعۃ‘‘ یعنی حضرت ضحاک تابعیؓ اور ایک جماعت نے یہی مطلب بیان کیا ہے۔ جیسا کہ آیت :’’یمریم اقنتی ربک واسجدی وارکعی مع الراکعین (آل عمران:۴۳)‘‘ میں تقدیم و تاخیر ہے۔ ایسا ہی آیت ہذا میں بھی ہے:’’عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ انی متوفیک الآیہ رافعک ثم یمیتک فی آخر الزمان (درمنثور)‘‘ یعنی حضرت ابن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے آسمان پر زندہ اٹھانے والا ہوں۔ پھر آخری زمانہ میںتجھے وفات دوں گا۔ کیوں جناب! اب بھی یہی کہو گے کہ حضرت ابن عباسؓ وفات مسیح کے قائل ہیںدیدہ باید، اور سنئے! ’’والصحیح ان اﷲ تعالیٰ رفعہ من غیروفات ولا نوم قال الحسن وابن زید وھواختیار الطبری وھو الصحیح عن ابن عباس (تفسیر ابو السعود)‘‘ یعنی اصلیت یہ ہے کہ خدا نے مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ بغیر وفات اور (گہری) نیند کے۔ جیسا کہ حسنؓ اور ابن زیدؒ نے کہا اور اسی کو اختیار کیا ہے۔ علامہ طبری ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہ نے اوریہ معنی صحت کے ساتھ ابن عباسؓ سے منقول ہے۔ اسی کے قریب جامع البیان میں مرقوم ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓاس جگہ تقدیم و تاخیر کے قائل ہیں۔ اس لئے ’’متوفیک‘‘ کے معنی ’’ممیتک‘‘ کئے ہیں۔ یعنی رفع آسمان ہو چکا۔ اب آسمان سے اترنے کے بعد وفات ہوگی۔ تفسیر میں ہے:’’رافعک الیّ من الدنیا من غیر موت‘‘ یعنی کلام الٰہی ’’رافعک الیّ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ میں تجھ کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ دنیا سے بغیر موت کے۔ پھر حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر کا مطلب بتایا ہے کہ :’’وفی البخاری قال ابن عباس متوفیک ممیتک ای ممیتک فی وقتک بعد النزول من السماء ورافعک الان‘‘ یعنی اب تو تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوںاور آسمان سے اترنے کے بعد تیری موت کے وقت تجھے مار دوں گا۔ تفسیر جلالین میں مرقوم ہے:’’انی متوفیک قابضک ورافعک الیّ من الدنیا من غیر موت‘‘نیز تفسیر فتح البیان میں ہے:’’قال الفراع ان فی الکلام تقدیما و