قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
حضرت موصوف کی دنیائے تصنیف میں گویہ پہلی تصنیف ہے؛لیکن یہ ایک تصنیف کئی تصانیف پر بھاری اور وزنی ہے اور اس رؤیاء صادقہ کو جسے نبوت کا چالیسواں حصہ قرار دیا گیاہے اور جس کی بابت لسان پر صداقت صلی اللہ علیہ وسلم یوں گویا ہے کہ’’ الرویا الصالحۃ من اللہ‘‘ یہ ایسی صحیح روایت ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو صفحاتِ صحیح میں جگہ دی ہے، جس کی تعبیرمیں ابن سیرین کوامامت کادرجہ ملا،اس کو لغو اور حدیثِ نفس کے زمرے میں شامل نہ کیاجائے۔ اگرایساہے تو مجھے لکھنے دیجئے کہ آپ کی زیرِ مطالعہ تصنیف میں توفیق الٰہی و خوشنودیٔ مولیٰ کے ساتھ ساتھ ایسے مبشرات کی تائید بھی حاصل ہے جوکتاب کی مقبو لیت میں چارچاندلگاسکتی ہے تصنیف کے ابتدائی ایام میں مصنف کو من جانب اللہ یہ دکھا یا جاتاہے کہ ’’مشکلات القرآن‘‘ کے مصنف محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہٗ ایک جگہ اپنے پروانوں کے جھرمٹ میں تشریف فرماہیں کہ اتنے میں ایک تصنیف لطیف (مرادیہی زیرِ نظر کتاب ہے)کاذکرچھڑگیاتوراقم آثم نادم کوترجمان بناتے ہوئے علا مہ کشمیریؒ نے فرمایا کہ مولانا رضوان الدین صاحب سے کہہ دو کہ جس کام کو شروع کیا ہے اس کام کو ضرور مکمل کریں ۔ خواب کی تعبیر ہر معبِّر اپنے ذ وق اور فن سے جو نکالنا چاہے نکالے لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ایک محقق عالم بل کہ راکب علی العلم کی روح اس کام کی اہمیت کے پیش ِنظر اسے علمی جامہ پہنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس سے آگے بڑھئے تو دورانِ تصنیف مصنف کو ایک اور بشریٰ سارّہ سے بھی مشرف ہونے کا شرف ملا کہ مفسر قرآن مفتی پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ایک چار پائی پرجلوہ افروز ہیں اورجناب مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ صاحب’’ تکملۂ فتح