قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
میرِ کارواں چل بسا: وہ منظر نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوتا،جب ۶؍فروری بروز منگل ۶؍بج کر ۱۵؍ منٹ پرجامعہ کے مطبخ میں تشریف فرماحضرت رئیس ِجامعہ حضرت مولاناغلام محمد وستا نو ی صاحب دامت برکاتہم فون کی گھنٹی بجتے ہی ریسیور اٹھارہے ہیں ، کسی خبر سنانے والے نے خبر سنائی، رئیس جامعہ حضرت وستانوی کی زبان پر بے ساختہ’’ اناللہ واناالیہ راجعون‘‘ کا وردجاری ہو گیا، بدن کانپ رہا تھا،انگلیاں حرکت کر رہی تھیں ، ہر محسوس کر نے والایہ محسو س کررہا تھا کہ کوئی ایسی المناک او روحشت اثر خبر ہے ، جو سماعت سے ٹکرائی اور بجلی بن کر قلب پر گر ی اور خرمن دل کو خاکستر کر گئی،سلسلۂ گفتگو ختم ہوا،توآپ صرف اتنا بتا سکے کہ حضرت مولانا سید اسعد مدنیؔؒ اللہ کو پیارے ہوگئے، اس خبر کو سنتے ہی مجلس سوگوار ہوگئی سب کی آنکھیں نم ہوگئیں ، ایسا محسوس ہواکہ ہم سب کے سر سے ایک گھناسایہ اُٹھ گیا ہو ۔ علالت کی خبرایک عرصہ سے سنی جار ہی تھی،لیکن اسے کیاکہیے کہ دل وفات حسر ت آیات کی خبر سننے کے لیے کسی طور آمادہ نہ تھا،مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملت ِاسلامیہ کے جاں نثا روں نے جب نبی مبعوث اور نبی محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی خبرِ رحلت صبر وتحمل کے ساتھ سنی، تو دیگر اولیاء، علماء عظام اور صوفیاء کرام کے انتقال پرملال کی خبر سن کر وہ صبر کے دامن کو ہا تھ سے کیسے جانے دیتے!البتہ رنج وملال کااحساس ایک فطری عمل ہے اس سے کوئی کیسے دامن چھڑا سکتا ہے۔ ایک ولی صفت انسان، ایک مردِ آہن، عزم واستقلال کاپیکر، ملک وقوم پر فدا ہونے والوں سے دلی وابستگی رکھنے والا، ایک شجرِ سایہ دار کل تک ہمارے درمیان تھا اور ہم پر سایہ فگن تھا،آج وہ ذات روپوش ہوگئی، ہمارے درمیان نہ رہی، ہمارے سروں