قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کے نزدیک ایک پکی سڑک اپنی نگرانی میں خود بیمارہونے کے باوجود کھڑے کھڑے بنوا ڈالی جس کی وجہ آنے جانے والے طلباء کو کیچڑ سے بچانا،کسی کوکیا خبر تھی کہ ہزاروں لوگ اشکباروغمگین آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے اسی سڑک سے مرحوم کو آخری منزل پر پہونچائیں گے؟ تعزیت کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت اسی سڑک کے آس پاس بیٹھ کر رئیس الجامعہ سے تعزیت کرنے میں مصروف تھی۔ہائے تیرے جذبۂ راحت رسانی کوسلام : ارے اس سے بھی بڑھ کر قابل رشک چیز یہ رہی کہ حضرت رئیس الجامعہ اور نائب رئیس الجامعہ کے درمیان بیٹھا تھا تو یہ بات سننے میں آئی کہ ابھی ہم طلبہ کی زیادتی کے پیش نظر اور جامعہ کے احاطہ کے باہر تنگ آنے جانے کے راستے نیز جلسہ کے موقع پر گاڑیوں کی پارکنگ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سڑک بنوائی جائے ابھی یہ بات چل رہی تھی کہ مرحوم کی بے چین اورچنچل طبیعت نے جامعہ کے احاطہ سے متصل ایک بہترین کشادہ ایسی سڑک تعمیر کر وادی کہ آنکھیں دیکھتی رہ گئیں ، کیا خبر تھی کہ آپ یکایک داغِ فرقت دے جائیں گے اور آپ کی آخری رسم میں آنے والے ساتھیوں کی گاڑیوں کی پارکنگ اس پر ہو گی؟سلام ِشوق تیری قلندرانہ نگاہوں کو: لکھوں توکہاں تک اورکتنا لکھوں ؟جذبات واحساسات رکنے کانام نہیں لے رہے ہیں ،اورقلم بازآنے کوتیارنہیں ہے،مگرساتھیوں کاتقاضہ ہے کہ تحریرجتنی جلد تیار ہو بھیج دو ،اس وجہ سے بادل ِناخواستہ قلم روک کر بس اتنا کہنا ہے کہ رئیس جامعہ اکل کوا نے نہ تو صرف اپناخودکاایک پرانا رفیق گنوایاہے بل کہ ایک کامیاب ناظم ،چست وچالاک منتظم،بااخلاق وبے مثال ایک ایساکارندہ گنوایاہے ،جواپنی ذات میں ایک انجمن تھے،