قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
جن کے اعمال اچھے ان کی موت بھی اچھی وہ پیاری پیاری ماں اپنی زندگی کی دھوپ چھاؤں مسرت وغم سہتے سہتے جب عمر کی اس منزل پرپہنچی جس میں عوارضات،بیماریاں اورضعف ونقاہت کاسامناکرنا پڑتا ہے ، ان کوبھی وہ عوارضات لاحق ہوئے،اپنی زندگی کاوافرحصہ بڑے بیٹے کے یہاں کبھی چھوٹے بیٹے کے یہاں کبھی اکل کواکاطویل سفرکرکے اپنے بیٹے اوربیٹیوں کے یہاں اپنے لمحات بتاتیں ، نواسوں ،پوتوں کو دیکھ کر خوش ہوتیں ،تربیت کی باتیں کرتیں ، شدہ شدہ ۱۴۳۷ھ کے رمضان کا مہینہ آلگا اور ۲۰۱۶ء کاماہِ جون،بیٹے اپنے دعوتی سفر پر روانہ ہوگئے، تو اپنی چھوٹی بیٹی جو مولانااویس وانکانیری سے منسوب ہے(مہتمم دار الیتامی بھروچ)ان کے یہاں رمضان گزارا( تقریبادوتین سال سے رمضان وہیں گزارتیں )میری اس بہن، بہنوئی نے بھی خوب خدمت کی اور دعائیں لیں ۔ حضرت مفتی صاحب کی عمرۂ رمضان کی واپسی پرہانسوٹ میں انہی کے گھر قیا م رہا،حضرت مفتی صاحب کی اہلیہ بیٹوں اوربہو سب نے خدمت میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی، اپنی بیماری کے دوران مسلسل اکل کواآنے کی خوا ہش کرتی رہیں ،مجھے عبد الرحیم لینے آرہا ہے،آئے گا،میری بیٹی لے جائے گی،اس طرح کی تمناکرتی رہیں ،لیکن راستہ کی ناہموا ری بیماری کی شدت اورجسم کی نقاہت کی وجہ سے حضرت مفتی صاحب کامنشاء دور دراز کے سفرکانہ تھا،تاہم آمدورفت برابرجاری رہی، کبھی حضرت وستانوی مع اہل ِخانہ خبرپرسی کے جذبہ سے تو کبھی حافظ سلیمان رندیرا عیاد ت کے جذبہ سے توکبھی راقم ِنادم اپنی جنت کے دیدار کے جذبہ سے آتے جاتے رہے، ایک مرتبہ تو حضرت وستانوی نے فون پر برہانی ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوتے ہوئے یہ تمنا ظاہر کی کہ میں والدہ کے ـلیے راحت رسا ں امبولنس کاانتظام کرتا ہوں ،والدہ کو اکل کوا لے لو لیکن یہ بھی اللہ کو منظور نہ تھا،بھائی عبد الر حمن